رات ڈھلنی ہے دن نکلنا ہے
رات ڈھلنی ہے دن نکلنا ہے اور بہت دور مجھ کو چلنا ہے یوں گیا بس میں اور یوں آیا صرف یہ پیرہن بدلنا ہے
رات ڈھلنی ہے دن نکلنا ہے اور بہت دور مجھ کو چلنا ہے یوں گیا بس میں اور یوں آیا صرف یہ پیرہن بدلنا ہے
جسم کو چھوڑ کے روداد ہوئے جاتے ہیں اپنی ہی موت پہ ہم شاد ہوئے جاتے ہیں بات یہ کیوں نہیں ہے جشن منانے کی کہو ہجر کی قید سے آزاد ہوئے جاتے ہیں
خواب ہے اور انہیں پانے کی عظمت بھی ہے علم ہے ضبط ہے اور جذبۂ محنت بھی ہے ان سے بڑھ کر بھی ہے کچھ آج کی عورت کا نشاں اتنا سب کچھ ہے مگر پھر بھی وہ عورت بھی ہے
جو کبھی کھو دیں کہیں خود کو تو پائیں بہتر توڑ کر پھر سے بنائیں تو بنائیں بہتر ادھ جلا چھوڑ نہ دیں ہم کو زمانے والے آگ ہم خود ہی لگائیں تو لگائیں بہتر
جھیل کر سختی پولس کی اور تھانے دار کی ملک کے قانون سے مظلوم بد ظن ہو گیا جیل میں کچھ اور اس کو مل گئے استاد فن کل جو لٹیا چور تھا پرفیکٹ رہزن ہو گیا
ضرورتوں نے ستایا ہے اس قدر مجھ کو غم معاش نے گھر سے نکال رکھا ہے ہمارے بچے غموں سے ہیں بے نیاز ابھی ابھی یہ مورچہ ہم نے سنبھال رکھا ہے
آج وہ کام کیا ہے مری محبوبہ نے دل مرا چاہتا ہے ڈوب کے مر جانے کو اس نے تلوار تھما کر یہ رقیبوں سے کہا کوئی پتھر سے نہ مارے مرے دیوانے کو
اک بے وفا سے عہد وفا کر کے آئے ہیں اب آ کے سوچتے ہیں یہ کیا کر کے آئے ہیں ناصرؔ جو دل میں تھا وہ زباں پر نہ آ سکا اس سے بھی ذکر آب و ہوا کر کے آئے ہیں
انتقام غم و الم لیں گے زندگی کو بدل کے دم لیں گے مر گئے تو فضائے گیتی کے ذرے ذرے میں ہم جنم لیں گے
رات کی پر سکوت ظلمت میں فرط حسرت سے رو رہا ہے کوئی زندگی کے حسین کھیتوں میں دکھ بھرے گیت بو رہا ہے کوئی