ہند کے مے خانے سے اک ساتھ اٹھے دو بادہ خوار
ہند کے مے خانے سے اک ساتھ اٹھے دو بادہ خوار ایک نے بوتل سنبھالی اک نے بوتل پھوڑ دی فاتحہ دونوں پہ دونوں نے کیا ہے انتقال ایک جنت میں مکیں ہے اک نے جنت چھوڑ دی ہے
ہند کے مے خانے سے اک ساتھ اٹھے دو بادہ خوار ایک نے بوتل سنبھالی اک نے بوتل پھوڑ دی فاتحہ دونوں پہ دونوں نے کیا ہے انتقال ایک جنت میں مکیں ہے اک نے جنت چھوڑ دی ہے
مرا من ہے شہر گوکل کی طرح سے صاف ستھرا مری سانس ایسی جیسے کوئی بانسری بجائے مری ایک آنکھ گنگا مری ایک آنکھ جمنا مرا دل خود ایک سنگم جسے پوجنا ہو آئے
کون جانے کہ خیالات ہیں دل میں کیسے چشم و ابرو کی مگر دیکھی اشارت اچھی دست نازک کی عنایت نظر خاص کی مہر مجھ سے تو ہے مری تصویر کی قسمت اچھی
ہاں آئنے میں ناز کی تصویر دیکھ لو گیسو کے خم میں حسن کی زنجیر دیکھ لو غصہ اگر ہے مجھ پہ تو وہ بھی ہے اک ادا چین جبیں میں عشق کی تصویر دیکھ لو
آنکھوں سے راز فاش ہے سب دل کے حال کا اس وقت تو خیال ہے مجھ خوش مآل کا جادو بھری نگاہ تصور میں جم گئی کاغذ پہ کھنچ گیا وہی نقشہ خیال کا
مے خوار ہوں میں وسعت مے خانہ دل میں ہے ساغر ہے کس شمار میں خم کس حساب میں بات آ پڑی ہے ظرف کی ساقی تو یوں سہی کوثر انڈیل دے مرے جام شراب میں
جسم کا رکھ رکھاؤ جاری رہے خوشیوں کا مول بھاؤ جاری رہے اور کچھ بھی نہ ہو تو یوں ہی سہی زندگی سے لگاؤ جاری رہے
ایک امید کا بھی تو نے سہارا نہ کیا کوئی حامی نہ بھری کوئی اشارہ نہ کیا میں تعاقب میں تیرے کب سے ہوں اے مستقبل اور تو ہے کہ پلٹنا بھی گوارہ نہ کیا
زندگی سے جواب مانگوں گا ہر گھڑی کا حساب مانگوں گا میں نے دیکھے جو خواب میرے نہ تھے اب کے میں انتخاب مانگوں گا
جتنا باقی ہے وہ امکان اٹھا رکھا ہے فکر فردا میں یہ اوسان اٹھا رکھا ہے کیسے مڑ کے تجھے دیکھیں گے تو ہی سوچ ذرا ہم نے سر پہ ابھی سامان اٹھا رکھا ہے