حاصل اجتناب سوچا ہے
حاصل اجتناب سوچا ہے روٹھ جائیں گے خواب سوچا ہے ساری دنیا کرے گی ایک سوال تم نے کوئی جواب سوچا ہے
حاصل اجتناب سوچا ہے روٹھ جائیں گے خواب سوچا ہے ساری دنیا کرے گی ایک سوال تم نے کوئی جواب سوچا ہے
پھول خود اپنے حسن میں گم ہے اس کو کب چاہنے کی فرصت ہے آؤ کانٹوں سے دوستی کر لیں جن کو ہمدرد کی ضرورت ہے
ختم کب ہو یہ کچھ نہیں معلوم ہر نفس پر ہے موت کا خطرہ زندگی اس طرح ہے دنیا میں جیسے کانٹے پہ اوس کا قطرہ
اب بھی اک لب میں اور تبسم میں حد فاصل ہے ایک دوری ہے کتنی صدیاں گزر چکیں لیکن زندگی آج بھی ادھوری ہے
موت کے بعد بھی تو چلتا ہے زندگی تیرے جبر کا ناٹک پھول ہنستے ہوئے ہی جاتے ہیں شاخ سے باغباں کی جھولی تک
یوں لگے تیرے تذکرہ سے اگر نام میرا ہٹا دیا جائے جیسے اک پھول کی کہانی سے ذکر خوشبو اڑا دیا جائے
تجھ سے بچھڑا تو سوچتا ہوں میں خود کو کب تک سنبھال پاؤں گا جتنی باتیں ہیں اتنی یادیں ہیں کیسے کیسے انہیں بھلاؤں گا
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
کبھی نرمی کبھی سختی کبھی الجھن کبھی ڈر وقت اے دوست بہرحال گزر جاتا ہے لمحہ لمحہ نظر آتا تھا کبھی اک اک سال ایک لمحہ میں کبھی سال گزر جاتا تھا
یوز کرتے ہیں مسلسل میک اپ کا ڈبہ روز کیوں بن سنور کر ہر گھری بنتے ہیں چھیلا روز کیوں ممی تم تو کہہ رہی تھیں عید تو کب کی گئی پھر پڑوسن سے گلے ملتے ہیں پپا روز کیوں