باندھ کر کفن سر سے یوں کھڑا ہوں مقتل میں
باندھ کر کفن سر سے یوں کھڑا ہوں مقتل میں جیسے سرفروشوں کا کارواں بنانا ہے اپنے سرخ ہونٹوں کی مسکراہٹیں دے دو بجلیوں کی یورش میں آشیاں بنانا ہے
باندھ کر کفن سر سے یوں کھڑا ہوں مقتل میں جیسے سرفروشوں کا کارواں بنانا ہے اپنے سرخ ہونٹوں کی مسکراہٹیں دے دو بجلیوں کی یورش میں آشیاں بنانا ہے
موقعۂ یاس کبھی تیری نظر نے نہ دیا شرط جینے کی لگا دی مجھے مرنے نہ دیا میں نے دیکھا ہے ترے حسن خود آگاہ کا رعب اجنبی نظروں کو چہرے پہ بکھرنے نہ دیا
جانے کب تک تری تصویر نگاہوں میں رہی ہو گئی رات ترے عکس کو تکتے تکتے میں نے پھر تیرے تصور کے کسی لمحے میں تیری تصویر پہ لب رکھ دیے آہستہ سے
بستی کی یہ اونچی حویلی درد کی چادر میں لپٹی جانے کس کو دیکھ رہی ہے برسوں سے ویران پڑی شاید تم کو یاد تو ہوگا اہل خرد وہ دور کہ جب اہل جنوں کی زنجیروں سے زندانوں میں جان پڑی مذہب سے کھلواڑ کیا تو اس کا یہ انجام ہوا مندر بھی ویران پڑا ہے مسجد بھی سنسان پڑی کس نے کس کو قتل کیا پہچان ...
ذرا دم تو لے لے طوفاں کہ تھکا ہے راستے کا مرے دم کے توڑنے میں ترا دم نہ ٹوٹ جائے وہی سر بلند محفل جسے آئے سرفروشی وہی زندگی کا مالک جو اجل پہ مسکرائے
ہمارے اہل چمن ہم سے سرگراں تو نہیں وہ چار تنکے سہی ننگ آشیاں تو نہیں ہمارے چند نشیمن جلے بلا سے جلے ہمارا سارا گلستاں دھواں دھواں تو نہیں
مرے ٹوٹے ہوئے دل کی صدا سے کھیلنے والے دعا اپنے لیے مانگ اب دعا سے کھیلنے والے تجھے بھی ایک دن احساس تنہائی رلا دے گا اکیلے بیٹھ کر اپنی ادا سے کھیلنے والے
کھلتی ہیں وہ مست آنکھیں ہنگام سحر ایسے تالاب میں راتوں کو کھلتے ہوں کنول جیسے اس طرح سے ہنستی ہیں معصوم تمنائیں جس طرح سے بچوں کے ہاتھوں میں نئے پیسے
اے دانہ ہائے گندم دیکھو نہ مسکرا کے میں پھر پہنچ رہا ہوں دنیا کی خاک اڑا کے کیوں اوج آسماں سے پھینکا گیا زمیں پر کیا مطمئن نہیں ہے محفل سے بھی اٹھا کے
کرم جب عام ہے ساقی تو پھر تخصیص یہ کیسی وہ چاہے کم دے لیکن سب کو حصہ دے برابر سے کہا ساقی نے میں سب کو بقدر ظرف دیتا ہوں برابر دے بھی دوں تو پی نہیں سکتے برابر سے