پھر بجے میرے خیالوں میں سنہرے کنگن
پھر بجے میرے خیالوں میں سنہرے کنگن بھولے بسرے ہوئے لمحات مجھے یاد آئے عید کے روز کسی نے بھی دعا جب مانگی دو حسیں مہندی لگے ہات مجھے یاد آئے
پھر بجے میرے خیالوں میں سنہرے کنگن بھولے بسرے ہوئے لمحات مجھے یاد آئے عید کے روز کسی نے بھی دعا جب مانگی دو حسیں مہندی لگے ہات مجھے یاد آئے
تیری خوش رنگ چوڑیاں اب تک ذہن میں بج رہی ہیں کچھ ایسے جیسے پاگل کے پاؤں میں زنجیر یا بھکاری کی جیب میں پیسے
اپنے ماتھے پر سجائے ہوئے صندل کا تلک آج آئی ہے تری یاد کی جوگن ایسے آرتی میری اتارے گی مرے ہی گھر میں اور پھر لوٹ کے جائے گی نہ شاید جیسے
جھلملاتے ہوئے سپنوں کا سویمبر بن کر بجلیاں سی مرے احساس میں لہرائی ہیں نظر آتا نہیں کچھ بھی ترے جلووں کے سوا تیری آنکھیں مری آنکھوں میں اتر آئی ہیں
نہ اہل مے کدہ نے مسکرا کر بات کی ہم سے نہ تیری ہی جبیں سے بے رخی کے بل گئے ساقی اگرچہ بزم میں صہبا بھی تھی مینا بھی تھی لیکن خود اپنی تشنگی کی آگ میں ہم جل گئے ساقی
کتنے پاکیزہ ہیں نوخیز جوانی کے کلس نظر آتا ہے ترا جسم شوالے کی طرح اپنے گیتوں کے مدھوبن میں بلاتا ہے تجھے میرا بچپن کسی گوکل کے گوالے کی طرح
میں نے دیکھا جب آدمی کا لہو زر پرستی کے آبگینے میں میرا احساس دل دھڑکنے لگا شاعری کے گداز سینے میں
سرخ ہونٹوں کی تازگی کے لئے خون کس نے دیا جوانی کا مجھ کو پہچان اے نگار حیات میں ہوں عنوان تری کہانی کا
اٹھ گیا اپنے یہاں سے ٹیلیفون اب کہیں جا کر ملے گا اگلی جون اس کے ہونے سے رہا کرتی تھی چخ یہ چمن یوں ہی رہے گا اور الخ
پیرو کاری چاپلوسی کالے دھن کا زور ہے کوئی رشوت خور ہے تو کوئی آدم خور ہے اک سے بڑھ کر ایک چالو ہے جہاں میں آج کل باپ انڈا چور ہے تو بیٹا مرغی چور ہے