ہاتھ جو بہر دعا اٹھے ہیں جھک جائیں گے
ہاتھ جو بہر دعا اٹھے ہیں جھک جائیں گے ہر نظر تشنہ بہ لب ہو کے دہائی دے گی آپ پردے میں چھپا لیں گی نہ چہرہ جب تک عید کے چاند کی صورت نہ دکھائی دے گی
ہاتھ جو بہر دعا اٹھے ہیں جھک جائیں گے ہر نظر تشنہ بہ لب ہو کے دہائی دے گی آپ پردے میں چھپا لیں گی نہ چہرہ جب تک عید کے چاند کی صورت نہ دکھائی دے گی
دیدۂ دل کو یوں نظر آیا ایک دھندلی سی یاد کا چہرہ جیسے دلہن کی مانگ میں مٹی جیسے بیوہ کے ہاتھ میں صحرا
رات بوجھل بھی ہے بھیانک بھی دل کے مدھم دیے میں تیل نہیں جان دینا بہت کٹھن ہی سہی زندہ رہنا بھی کوئی کھیل نہیں
سنسناتی ہوئی ہوا کی طرح یوں تری یاد ذہن میں آئی دن ڈھلے دور جنگلوں میں کہیں جیسے روتی ہو شام تنہائی
بہت مختصر سا تعارف ہے میرا نہ جوش جنوں ہوں نہ راز نہاں ہوں کتابوں میں مجھ کو کہاں ڈھونڈتے ہو میں چہرے پر لکھی ہوئی داستاں ہوں
دور پیپل کی بوڑھی شاخوں میں اک پرندہ سا پھڑپھڑایا ہے دل بے تاب دیکھنا تو ذرا کیا کسی نے مجھے بلایا ہے
آج ہے اہل محبت کا مقدس تیوہار رنگ کیوں لائے نہ معصوم دعاؤں کا اثر عید کا دن ہے چلو آج گلے مل جائیں تم ہو مسجد کی اذاں، میں ہوں شوالے کا گجر
اوس میں بھیگی ہوئی تنہائیوں کے جسم سے آ رہی ہے تیرے پیراہن کی خوشبو اس طرح نرم خوابوں کے شبستانوں میں لہراتی ہوئی گنگنائے رات کی الھڑ جوانی جس طرح
جھک گئیں مل کے اجنبی آنکھیں دل سے دل ہم کلام ہو نہ سکا ہائے مجبوریاں محبت کی ہاتھ اٹھے سلام ہو نہ سکا
کتنے سپنوں کے مکٹ ٹوٹ گئے اک پل میں کتنی یادوں کے تلک وقت کے ماتھے سے دھلے میں نے دھوئے ہوئے ہیں دھول بھرے پاؤں مگر اپنی آنکھوں کے محبت بھرے گنگا جل سے