اقبال کیا بتاؤں کہ کیا ہے قلندری
اقبال کیا بتاؤں کہ کیا ہے قلندری اچھا سا اک خطاب ہو اچھی سی نوکری بوتل مے فرنگ کی رکھی ہو سامنے اور ہو بغل میں اس کے پلانے کو اک پری ایسی پری ہو جس کو ہو شوق مباشرت یہ سب نہیں تو ہیچ ہے ایسی قلندری
اقبال کیا بتاؤں کہ کیا ہے قلندری اچھا سا اک خطاب ہو اچھی سی نوکری بوتل مے فرنگ کی رکھی ہو سامنے اور ہو بغل میں اس کے پلانے کو اک پری ایسی پری ہو جس کو ہو شوق مباشرت یہ سب نہیں تو ہیچ ہے ایسی قلندری
سکوں پسند جو دیوانگی مری ہوتی خبر کسی کو نہ انجام عشق کی ہوتی غلط بتاتے ہو ناصح جو میری فریادیں خطا معاف محبت کسی سے کی ہوتی
بوجھ اتنا بھر گئی تھی روح سبک نکل کے اک اک کا منتظر تھا دو چار گام چل کے حالانکہ گھر سے تربت کچھ دور تھی نہ اپنی پہنچا مرا جنازہ کاندھے بدل بدل کے
حالات گلستاں پہ بہت ہم نے نظر کی اپنوں کے سوا بات کسی سے نہ کی ڈر کی صیاد کو دیتا ہے پتا نغمۂ بلبل گلچیں کو بلا لیتی ہے خوشبو گل تر کی
کام آئیں شوخیاں نہ ادا کارگر ہوئی جو بات تھی تمہاری وہی بے اثر ہوئی خلوت میں جا کے ہنس دئے کیا اس سے فائدہ صحرا میں پھول کھل گیا کس کو خبر ہوئی
فلک نامہرباں ہے مل رہے ہیں مہرباں پھر بھی بہت کچھ مٹ چکے باقی ہیں الفت کے نشاں پھر بھی محبت دیکھیے ٹھکرا رہے ہیں کارواں والے مگر پیچھے چلی آتی ہے گرد کارواں پھر بھی
پڑھ چکے حسن کی تاریخ کو ہم تیرے بعد عشق آگے نہ بڑھا ایک قدم تیرے بعد آج تک پھر کوئی تصویر نہ ایسی کھینچی جیسے کھا لی ہو مصور نے قسم تیرے بعد
رہا برسات میں اے شیخ میں سوکھا نہ تو سوکھا یہاں تو جس قدر بارش ہوئی اتنا لہو سوکھا بھرا تھا اس قدر پانی ہر اک کوٹھے میں آنگن میں نمازی گھر کی دیواروں پہ کر نکلے وضو سوکھا
آدمی تھے شے ہوے سودا ہوئے بد ہوے بد تر ہوے بیجا ہوئے کم ہوے کم تر ہوئے پھر نا ہوئے اس طرح ہم عشق میں ضائع ہوئے
ٹھوکروں سے بکھر نہیں سکتی اور چوٹوں سے ڈر نہیں سکتی اک سمندر ہے منتظر میرا میں ندی ہوں ٹھہر نہیں سکتی