میزان ہاتھ میں ہے زیاں کی نہ سود کی
میزان ہاتھ میں ہے زیاں کی نہ سود کی تفریق ہی محال ہے بود و نبود کی پروا نہیں ہے ہم کو خود اپنے وجود کی لیکن شکایتیں ہیں یہود و ہنود کی
میزان ہاتھ میں ہے زیاں کی نہ سود کی تفریق ہی محال ہے بود و نبود کی پروا نہیں ہے ہم کو خود اپنے وجود کی لیکن شکایتیں ہیں یہود و ہنود کی
کامیابی کا ہے رئیسؔ امکاں گر مرتب عمل کے خاکے ہوں اف بیانات کی یہ گونج گرج جس طرح ایٹمی دھماکے ہوں
گلوں سے بچ کے سنواری ہے زندگی اپنی خزاں میں میں نے گزاری ہے زندگی اپنی خزاں نے گود میں پالا ہے لوریاں دے کر غم بہار سے عاری ہے زندگی اپنی
لفظ چنتا ہوں تو مفہوم بدل جاتا ہے اک نہ اک خوف بھی ہے جرأت اظہار کے ساتھ دو گھڑی آؤ مل آئیں کسی غالبؔ سے قتیلؔ حضرت ذوقؔ تو وابستہ ہیں دربار کے ساتھ
سرخ آہن پر ٹپکتی بوند ہے اب ہر خوشی زندگی نے یوں تو پہلے ہم کو ترسایا نہ تھا خوب روئے چھپ کے گھر کی چار دیواری میں ہم حال دل کہنے کے قابل کوئی ہم سایا نہ تھا
مطمئن کوئی نہیں ہے اس سے کوئی برہم ہے تو خائف کوئی نہیں کرتی یہ کسی سے بھی وفا زندگی ہے کہ طوائف کوئی
اک ایسا وقت بھی آتا ہے چاندنی شب میں مرا دماغ مرا دل کہیں نہیں ہوتا ترا خیال کچھ ایسا نکھر کے آتا ہے ترا وصال بھی اتنا حسیں نہیں ہوتا
بڑا منصف ہے امریکہ اسے اللہ خوش رکھے بزعم خویش وہ سب کو برابر پیار دیتا ہے کسی کو حملہ کرنے کے لیے دیتا ہے میزائل کسی کو ان سے بچنے کے لیے راڈار دیتا ہے
کون اس دیس میں دے گا ہمیں انصاف کی بھیک جس میں خونخوار درندوں کی شہنشاہی ہے جس میں غلے کے نگہباں ہیں وہ گیدڑ جن سے قحط و افلاس کے بھوتوں نے اماں چاہی ہے
میں کہا خلق تمہاری جو کمر کہتی ہے تم بھی اس کا کہیں کچھ ذکر و بیاں سنتے ہو ہنس کے یوں کہنے لگا خیر اگر ہے یہ بات ہووے گی ویسی ہی جیسی کہ وہاں سنتے ہو