دور گھاٹی سے سر اٹھا کے شفق
دور گھاٹی سے سر اٹھا کے شفق ذرے ذرے پہ مسکراتی ہے جیسے چپ چاپ کوئی شوخ کلی چھپ کے سبزے پہ لیٹ جاتی ہے
دور گھاٹی سے سر اٹھا کے شفق ذرے ذرے پہ مسکراتی ہے جیسے چپ چاپ کوئی شوخ کلی چھپ کے سبزے پہ لیٹ جاتی ہے
بیٹھی سکھیوں کے گھیرے میں دلہن ظاہراً تو بہت لجاتی ہے چور آنکھوں سے دیکھ کر کنگن اپنے ساجن کا درش پاتی ہے
حسن بتاں کو دیکھ کے میں دنگ رہ گیا حیرت کا میری آنکھوں میں اک رنگ رہ گیا جس قافلہ کے ساتھ تھا مجھ سا شکستہ پا پیچھے وہ قافلہ کئی فرسنگ رہ گیا
اس کی مرضی سے الگ مذہب و ایقاں کب تک سنو اے واعظو یہ جنگ کا میداں کب تک جاگو جاگو کہ ستاروں پہ ہیں دنیا کے قدم عقل کے دشمنو تم بیچو گے ایماں کب تک
ہم کثرت انوار سے گھبرائے ہوئے ہیں وہ رخ سے نقاب آج جو سرکائے ہوئے ہیں بڑھتی ہی چلی جائے گی عشاق کی وحشت گیسو ترے شانے پہ جو بل کھائے ہوئے ہیں
خانقاہوں میں کسی کا بول اب بالا نہیں سر تو سجدے میں ہے لیکن نور کا ہالا نہیں کیوں ہوا خواہان دنیا کو ڈراتا ہے بہت شیخ یہ ایمان ہے مکڑی کا کچھ جالا نہیں
سو مشکلیں تھیں عشق کے آزار کے لئے ہموار راہ شوق نہ تھی پیار کے لئے آنکھوں میں انتظار کی بیتابیوں کے ساتھ در پر کھڑے رہے ترے دیدار کے لئے
گئے دنوں میں یہ انعام ہونے والا تھا وہ ایک شخص مرے نام ہونے والا تھا خدا کا شکر کہ آہٹ سے خواب ٹوٹ گیا میں اپنے عشق میں ناکام ہونے والا تھا
جو اپنے قول کو قانون سمجھیں وہ قائل ہو نہیں سکتے ابد تک بہت سے لوگ یاران وطن ہیں محقق ہیں مگر حقے کی حد تک
ہم لوگ ہیں واقعی عجوبہ کیوں آپ میں مست ہیں نہ جانے سنتے ہیں نیوز بی بی سی سے آل انڈیا ریڈیو سے گانے