چپکے چپکے جہاں بسا لیتا
چپکے چپکے جہاں بسا لیتا اپنا محبوب بھی بنا لیتا گر چنبیلی کی بیل تم ہوتیں اپنے آنگن میں خود لگا لیتا
چپکے چپکے جہاں بسا لیتا اپنا محبوب بھی بنا لیتا گر چنبیلی کی بیل تم ہوتیں اپنے آنگن میں خود لگا لیتا
جب بھی کھلتا ہے سر شاخ کوئی تازہ گلاب تم اسے توڑ کے جوڑے میں سجا لیتی ہو جانے کیا بات ہے تم اپنے سوا دنیا میں ہر حسیں چیز کو جھنجلا کے مٹا دیتی ہو
میرے ماضی سے چلی آتی ہے ہر روز وہ رات پاس آ جاتے ہیں تیرے لب و زلف و رخسار تم سے روکا نہ گیا اپنی حسیں یادوں کو ہم گراتے ہی رہے وقت کے بام و دیوار
اس طرح دل میں شب تنہائی ان کی زلفوں کا خیال آتا ہے چاندنی رات میں جیسے صابرؔ سانپ صندل سے لپٹ جاتا ہے
ابھی سے لطف و مروت کا اہتمام نہ کر نظر کو تیر لبوں کو ابھی سے جام نہ کر ابھی نہ شانے سے ڈھلکا تو ریشمی آنچل حسین شام ہے ایسے میں قتل عام نہ کر
حسن بے پردا کی یلغار لئے بیٹھے ہیں ترچھی نظروں کے کڑے وار لئے بیٹھے ہیں دیکھیے کون شہادت کی سعادت پائے ہاتھ میں آج وہ تلوار لئے بیٹھے ہیں
گر رہے ہیں بدن پہ شاخ سے پھول چھو رہی ہے صبا لب و رخسار سایۂ گل میں ایک دوشیزہ دیر سے تک رہی ہے رقص بہار
آنکھوں کے گلابوں کو نظموں میں چھپا لوں گا زلفوں کے اجالوں سے غزلوں کو سجا لوں گا ہونٹوں سے تراشوں گا اشعار کی کلیوں کو سوئی ہوئی نیندوں سے قطعات چرا لوں گا
دل کی دھڑکن کے پیامات سے ڈر جاتے ہیں عمر ایسی ہے کہ ہر بات سے ڈر جاتے ہیں خشک پتو نہ گرو ٹھہرے رہو شاخوں پر وہ اندھیروں کی ملاقات سے ڈر جاتے ہیں
آج پنگھٹ پر اس طرح تھی بھیڑ ہر طرف لڑکیوں کا ریلا تھا ایک آتی تھی ایک جاتی تھی جیسے ساون میں تیج میلہ تھا