وہ سر شام بام پر آئے
وہ سر شام بام پر آئے منہ کو پورب میں اس طرح موڑا ایک سہاگن نے دیکھ کر ان کو ست نرائن کے برت کو توڑا
وہ سر شام بام پر آئے منہ کو پورب میں اس طرح موڑا ایک سہاگن نے دیکھ کر ان کو ست نرائن کے برت کو توڑا
مجھ کو تو آپ مرے خواب میں مل جائیں گے نیند اکثر مری پلکوں سے گلا کرتی ہے آپ بھی دیکھا کریں اپنے تصور میں مجھے خواب سے خواب کی تعبیر ملا کرتی ہے
ہم جو کافر ہیں سب کی نظروں میں سیڑھیاں مسجدوں کی چڑھتے ہیں کون جانے وہ مل ہی جائے ہمیں آج ہم بھی نماز پڑھتے ہیں
دل میں لے کر ہم آس پھرتے رہے ہم خوشی میں اداس پھرتے رہے تو رہی دور دور ہم سے مگر ہم ترے آس پاس پھرتے رہے
زندگی تو نے کہانی دے دی باتوں باتوں میں نشانی دے دی رخ رنگیں سے اڑا کر آنچل سارے موسم کو جوانی دے دی
کہہ رہی ہے روش کی تابانی دیکھے بھالے ادھر سے گزرے ہیں آ صبا ہم بھی اس طرف سے چلیں حسن والے ادھر سے گزرے ہیں
حال کا لمحہ لمحہ چھلنی ہے وقت کو راہ سے ہٹاتا ہوں دیکھو شاید پلٹ کے تم مجھ کو لو میں ماضی میں لوٹ جاتا ہوں
دن گزرتا ہے ان کی یادوں میں روشن اشکوں سے رات کرتا ہوں میں تو کہتا نہیں ہوں شعر کبھی دل کے زخموں سے بات کرتا ہوں
ہو کر دنیا سے بیگانہ دیکھ رہا تھا شہد کے چھتے آگ لگانے آ پہنچے ہیں تیری یاد کے سوکھے پتے
صحن گلشن میں ڈھونڈھتی ہے کبھی شوخ پھولوں میں بانکپن اپنا کبھی ندی میں دیکھتی ہے صبا لہر کھاتا ہوا بدن اپنا