ہے احتساب وقت کی لٹکی ہوئی صلیب
ہے احتساب وقت کی لٹکی ہوئی صلیب ہر روز جیسے روز جزا دام چڑھ گئے! نقد خرد سرور تمنا کا مول ہے ارماں کا رنگ زرد ہوا دام چڑھ گئے
ہے احتساب وقت کی لٹکی ہوئی صلیب ہر روز جیسے روز جزا دام چڑھ گئے! نقد خرد سرور تمنا کا مول ہے ارماں کا رنگ زرد ہوا دام چڑھ گئے
ایک بہکی ہوئی نظر تیری رخ نئی کونپلوں کے موڑ گئی ایک بے نام درد کی ٹھوکر چاندنی کے ظروف توڑ گئی
جانے والے ہماری محفل سے چاند تاروں کو ساتھ لیتا جا ہم خزاں سے نباہ کر لیں گے تو بہاروں کو ساتھ لیتا جا
اے ستاروں کے چاہنے والو آنسوؤں کے چراغ حاضر ہیں رونق جشن رنگ و بو کے لیے زخم حاضر ہیں داغ حاضر ہیں
ہر ماہ لٹ رہی ہے غریبوں کی آبرو چڑھنے لگا ہلال قضا دام چڑھ گئے اے وقت مجھ کو غیرت انساں کی بھیک دے روٹی میں بک گئی ہے ردا دام چڑھ گئے
پھر امڈ آئے ہیں یادوں کے سہانے بادل پھر دل زار میں اک شعلۂ ارماں جاگا میرے افکار کے بجھتے ہوئے ریزے چونکے میرے حرماں کا سلگتا ہوا عنواں جاگا
کوئی تازہ الم نہ دکھلائے آنے والے خوشی سے ڈرتے ہیں لوگ اب موت سے نہیں ڈرتے لوگ اب زندگی سے ڈرتے ہیں
جام عشرت کا ایک گھونٹ نہیں تلخیٔ آرزو کی مینا ہے زندگی حادثوں کی دنیا میں راہ بھولی ہوئی حسینہ ہے
ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا ہم کئی روپ دھار لیتے ہیں زندگی کے اداس لمحوں کو مسکرا کر گزار لیتے ہیں
وقت بڑھتا رہا موسم موسم نئی رت آئی نئے پھول کھلے انہیں راہوں میں گزر گاہوں میں تم سے پہلے بھی کئی لوگ ملے