قافلے منزل مہتاب کی جانب ہیں رواں
قافلے منزل مہتاب کی جانب ہیں رواں میری راہوں میں تری زلف کے بل آتے ہیں میں وہ آوارۂ تقدیر ہوں یزداں کی قسم لوگ دیوانہ سمجھ کر مجھے سمجھاتے ہیں
قافلے منزل مہتاب کی جانب ہیں رواں میری راہوں میں تری زلف کے بل آتے ہیں میں وہ آوارۂ تقدیر ہوں یزداں کی قسم لوگ دیوانہ سمجھ کر مجھے سمجھاتے ہیں
وحشت دل نے کانچ کے ٹکڑے میری فردوس میں بکھیرے ہیں قریۂ ماہتاب کے جویا بستر خاک پر بسیرے ہیں
چشم کو اعتبار کی زحمت دل کو صبر و شکیب دیتا ہے آئنے میں نہ عکس ہستی دیکھ آئنہ بھی فریب دیتا ہے
آہ! تیرے بغیر یہ مہتاب ایک بے سر کی لاش ہو جیسے کسی دوزخ کے آتشیں یہ پھل آتش آمیز قاش ہو جیسے
میں نے لوح و قلم کی دنیا کو جشن دار و صلیب سمجھا ہے اے تنفس کے جانچنے والے تجھ کو کتنا قریب سمجھا ہے
دکھ بھری داستان ماضی کی حال کی بے رخی کا قصہ ہوں اے حقیقت کے ڈھونڈنے والے میں تری جستجو کا حصہ ہوں
اے کہ تخلیق بحر و بر کے خدا مجھ پہ کتنا کرم کیا تو نے میری کٹیا کے دیپ کی خاطر آندھیوں کو جنم دیا تو نے
چھپ کے آئے گا کوئی حسن تخیل کی طرح آج کی رات چراغوں کو جلانا ہے منع کھول دو ذہن کے سہمے ہوئے دروازوں کو آج جذبات پہ لہروں کا بٹھانا ہے منع
سونے چاندی کی چمکتی ہوئی میزانوں میں میرے جذبات کی تسکین نہیں ہو سکتی زندگی روز ازل سے ہے چھلکتا ہوا زہر زندگی لائق تحسین نہیں ہو سکتی
ساقیا ایک جام پینے سے جنتیں لڑکھڑا کے ملتی ہیں لالہ و گل کلام کرتے ہیں رحمتیں مسکرا کے ملتی ہیں