جبر و جہالت
یہ کاروبار جبر و جہالت نہیں قبول یہ فسطائیت کسی حالت نہیں قبول انسان کا بھی قتل ہے انصاف کا بھی قتل انصاف ماورائے عدالت نہیں قبول
یہ کاروبار جبر و جہالت نہیں قبول یہ فسطائیت کسی حالت نہیں قبول انسان کا بھی قتل ہے انصاف کا بھی قتل انصاف ماورائے عدالت نہیں قبول
شہر کو رونق ملے ہے گاؤں سے پیڑ کی طاقت نہ جانچو چھاؤں سے محض قد سے شخص قد آور نہیں اپنی قامت ڈھونڈھ اپنے پاؤں سے
زندگی میں لگ چکا تھا غم کا سرمایہ بہت اس لیے شاید کمایا ہم نے کم پایا بہت راندۂ ہر فصل گل ہم کب نہ تھے جو اب ہوئے سنتے ہیں یاروں کو یہ موسم بھی راس آیا بہت
رات ہم اک شاعر اعظم کے گھر ملنے گئے با دل ناخواستہ کھانا اسے چننا پڑا جو بھی دسترخوان پر تھا کھا کے فارغ ہم ہوئے پھر ہمیں دیوان اس کا صبح تک سننا پڑا
ایسے کنکر پھینکتا ہوں میں پانی مجھ سے ڈر جاتا ہے کمرا جتنا بھی خالی ہو ایک چراغ سے بھر جاتا ہے
میں اپنے خواب میں مرنے لگا ہوں سو یہ وعدہ خلافی تو نہیں ہے میں برسوں بعد گھر کو جا رہا ہوں یہ ہجرت کے منافی تو نہیں ہے
دوسروں کو مٹانے کی دھن میں آدمی خود کو یوں مٹاتا ہے جیسے چبھنے کی فکر میں کانٹا شاخ سے خود ہی ٹوٹ جاتا ہے
میری تنہائیاں بھی شاعر ہیں نذر اشعار و جام رہتی ہیں اپنی یادوں کا سلسلہ روکو میری نیندیں حرام رہتی ہیں
در بدر سر جھکائے پھرتا ہے عارضی اقتدار کی خاطر کتنا مجبور ہو کے جیتا ہے آدمی اختیار کی خاطر
اکثر اس طرح آس کا دامن دل کے ہاتھوں سے چھوٹ جاتا ہے جیسے ہونٹوں تک آتے آتے جام دفعتاً گر کے ٹوٹ جاتا ہے