شاعری

قصہ گو

وہی قصہ گو جو اک روز قصہ سناتے سناتے کسی پیاس کو یاد کرتا ہوا، اٹھ گیا تھا پھر اک روز لوگوں سے یہ بھی سنا تھا کہ وہ، پیاس ہی پیاس کی رٹ لگاتا ہوا اک کنویں میں گرا تھا ادھر کچھ دنوں سے یہ افواہ گردش میں ہے کہ وہ قصہ گو جسے بھی دکھائی دیا ہے وہ بس! پیاس ہی پیاس کی رٹ لگاتا ہوا کنویں کی ...

مزید پڑھیے

طے شدہ موسم

مسافر ہوئے پھر اک اندھے سفر کے پتہ طے شدہ موسموں کا کہیں کھو گیا ہے بڑے شہر کے اک کلب میں دیوالی مناتے ہوئے کل کسی نے کہا تھا سنما کے پردے کئی تیج تیوہار میلے سمیٹے ہوئے ہیں تمہیں فکر کیسی یہ کیوں رنگ چہرے کا پھیکا پڑا ہے تمہیں سست قدموں پہ نادم ہوئے تھے تمہیں کو ہوس تھی کہ رفتار ...

مزید پڑھیے

پہلا خطبہ

پھر اک جم غفیر ایک میدان میں آسماں کی طرف دیر سے تک رہا ہے! امرأ القیس کی بیٹیاں شاعری کی زباں پھر سمجھنے لگیں لپلپاتی زبانیں خطابت کا جادو جگانے لگیں وہ خدا زادیاں مسکرانے لگیں اور میلوں میں پھر بھیڑ بڑھنے لگی کوئی منبر سے بولا کہ اے میرے پیارو! تمہیں اپنے اگلوں کی عمریں ...

مزید پڑھیے

دھواں اٹھ رہا ہے

دھواں اٹھ رہا ہے افق سے دھواں اٹھ رہا ہے سمندر کی سانسیں اکھڑنے لگی ہیں بہت دھیمی دھن پر کوئی ماہیا گا رہا ہے حرکت حرکت حرکت حرکت قویٰ شل ہوئے جا رہے ہیں اچانک وہ آبی پرندوں کو اڑتا ہوا دیکھتے ہیں سبھی چیختے ہیں تو سلطان صاحب سریر آمدی علیٰ کل شئ قدیر آمدی کلیسا شوالے مقدس ...

مزید پڑھیے

پرچھائیاں پکڑنے والے

ڈائری کے یہ سادہ ورق اور قلم چھین لو آئینوں کی دکانوں میں سب اپنے چہرے لیے اک برہنہ تبسم کے محتاج ہیں سرد بازار میں ایک بھی چاہنے والا ایسا نہیں جو انہیں زندگی کا سبب بخش دے دھند سے جگمگاتے ہوئے شہر کی بتیاں سجدہ کرتی ہوئی کہکشاں خوبصورت خداؤں کی پھرتی ہوئی ٹولیاں ایسا لگتا ہے ...

مزید پڑھیے

واپسی

اذیت اور اس سکوں دونوں کو ہی دل کھول کے میں نے لٹایا ہے ہزاروں بار ایسا بھی ہوا ہے دوستوں کی رہنمائی میں پھرا ہوں مارا مارا شہر کی آباد سڑکوں پر کبھی ویران گلیوں میں کبھی صحراؤں کی بھی خاک چھانی ہے مگر اس بار جانے کیا ہوا مجھ کو نمائش کی دکانوں میں سجا کر خود کو گھر واپس چلا ...

مزید پڑھیے

نجات

نزول عتاب کی گھڑی نزدیک ہے۔۔۔ درباری کتے! روپوش باغیوں کی تلاش میں زمینیں سونگھتے پھر رہے ہیں سربراہوں کی قوت فیصلہ جواب دے چکی ہے ان کے مفلوج ہاتھ درباریوں کے رچائے شڑینتروں پر کیوں دستخط کرنے کی مشینیں ہیں ان کی زبانیں صرف دھمکیاں بولتی ہیں ان کے انا پرست کان گڑگڑاہٹیں سننے ...

مزید پڑھیے

شناسا آہٹیں

ادھر کئی دنوں سے دور دور تک بھی نیند کا پتہ نہیں کسیلے کڑوے ذائقے ٹپک رہے ہیں آنکھ سے کئی پہر گزر چکے طویل کالی رات کے میں سن رہا ہوں دیر سے ہزاروں بار کی سنی سنائی دستکیں کبھی شناسا آہٹیں کبھی نشیلی سرسراہٹیں کواڑ کھولتے ہی دستکیں! وہ آہٹیں نشیلی سرسراہٹیں خراج روٹھی نیند کا ...

مزید پڑھیے

فریادی ماتم

خدائے لم یزل کی بارگاہ میں سر بہ سجود! انا کی چوکھٹوں میں جڑے چہروں والے لوگ پیشانیوں پر گٹے ڈالنے میں مصروف ہیں آٹے میں سنی مٹھیاں ان کی بخشش کی ضمانت ہیں یہ کون سی جنت نعیم ہے جس کا راستہ چیونٹیوں کی بانبی سے ہو کر گزرتا ہے دربانوں اور کتوں کو کھلی آزادی ہے 'جاگتے رہو' کی ...

مزید پڑھیے

آوارہ پرچھائیاں

سارے دن کی تھکی، ویران اور بے مصرف رات کو ایک عجیب مشغلہ ہاتھ آ گیا ہے اب وہ! سارے شہر کی آوارہ پرچھائیوں کو جسم دینے کی کوشش میں مصروف ہے مجھے معلوم ہے اگر گم نام پرچھائیوں کو ان کی پہچان مل گئی تو شہر کے معزز اور عبادت گزار شریف زادے ہم شکل پرچھائیوں کے خوف سے پرچھائیوں میں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 954 سے 960