شاعری

مجھے رستہ نہیں ملتا

مجھے رستہ نہیں ملتا میں جوہڑ میں کھلے پھولوں کے حق میں بول کر دلدل کی تہہ میں دھنس گیا ہوں میں نہیں کہتا کہ یہ کس آسماں کا کون سا سیارۂ بد ہے مگر یہ تہہ زمیں کی آخری چھت ہے یہاں دن ہی نکلتا ہے نہ شام عمر ڈھلتی ہے پرندہ بھی نہیں کوئی کہ جس کے پاؤں سے کوئی نوشتہ باندھ کر بھیجوں تو ...

مزید پڑھیے

خدا کی جگہ خالی ہے

شنکر ڈمرو کا متبادل تلاش کر چکا گوپیاں اب کسی اودھو کی محتاج نہیں ٹرنک کال ان کی سمسیاؤں کا حل ہے عزرائیل! ایٹم اور ہیلیم کے حق میں دست بردار ہونے کی فکر میں ہے اسرافیل کی جمالیاتی حس کو جلا مل گئی اب وہ کسی میوزک اسکول میں داخلہ لے لے گا فوڈ کارپوریشن کا مطالبہ: 'میکائیل کا ...

مزید پڑھیے

تو میرا ہے

تو میرا ہے تیرے من میں چھپے ہوئے سب دکھ میرے ہیں تیری آنکھ کے آنسو میرے تیرے لبوں پہ ناچنے والی یہ معصوم ہنسی بھی میری تو میرا ہے ہر وہ جھونکا جس کے لمس کو اپنے جسم پہ تو نے بھی محسوس کیا ہے پہلے میرے ہاتھوں کو چھو کر گزرا تھا تیرے گھر کے دروازے پر دستک دینے والا ہر وہ لمحہ جس ...

مزید پڑھیے

ایک نظم

دانشور کہلانے والو تم کیا سمجھو مبہم چیزیں کیا ہوتی ہیں تھل کے ریگستان میں رہنے والے لوگو تم کیا جانو ساون کیا ہے اپنے بدن کو رات میں اندھی تاریکی سے دن میں خود اپنے ہاتھوں سے ڈھانپنے والو عریاں لوگو تم کیا جانو چولی کیا ہے دامن کیا ہے شہر بدر ہو جانے والو فٹ پاتھوں پر سونے ...

مزید پڑھیے

کاش

میں شہر تمنا کی تاراج نگری کے ملبے میں لاچار و تنہا کبھی اس کھنڈر پر کبھی اس کھنڈر تک بھٹکتا ہوا ڈھونڈتا پھر رہا ہوں اپنے معصوم مسمار خوابوں کا ملبہ تبھی اک طرف کو نظر جو گئی تو دکھائی دیا ٹوٹے پھوٹے جلائے گئے کچھ مکاں ایک مینار مسجد کلش ایک مندر کا اوندھا پڑا ہے کریدا تو ملبے کے ...

مزید پڑھیے

بے یقینی کا صحرا

اے خدا تیرا لاچار بندہ تشنہ لب بے سہارا بے یقینی کے صحرا میں تنہا کھڑا ہے کتابوں سے لہجوں سے لفظوں سے میرا یقیں اٹھ چکا ہے ہر طرف شور ہے کھوکھلے الفاظ و اظہار کا صرف پرچار کا سب عقیدے نظریے محض اشتہارات ہیں ڈھول پیٹے چلے جا رہے ہیں اس قدر شور ہے کہ سماعت بھی پتھرا گئی ہے اس قدر ...

مزید پڑھیے

بشر زندہ ہے

میری بستی میں بہت دیر سے سناٹا ہے نہ کہیں نالہ و شیون نہ کوئی شور بکا پر کہیں دور بہت دور کسی کوچے سے ہولے ہولے سسکنے کی صدا آئی ہے سن کے یہ گریۂ افتادہ تسلی سی ہوئی میری بستی میں ابھی کوئی بشر زندہ ہے ختم ہو جائے گی یہ رات سحر زندہ ہے کیا عجب کہ یہی موہوم سی آواز یہی سسکاری ایک دن ...

مزید پڑھیے

دعا

کیا یہی زندگی ہے کہ ہم اپنے ہونے کی خوشیاں مناتے رہیں جسم کی لذتوں نفس کی شہوتوں میں بھٹکتے رہیں سارے بے آسرا غم گزیدوں کو عبرت کا ذریعہ سمجھ کر اپنی آسائشوں نعمتوں کے لیے سجدۂ شکر میں اپنے سر کو جھکاتے رہیں کیا یہی زندگی ہے کیا یہی زندگی ہے کہ ہم غاصبوں زرپرستوں سے نظریں چرا ...

مزید پڑھیے

میرا سایہ

مجھے تم سے کوئی محبت نہ الفت تعلق بھی اب ہے برائے تعلق مگر تم سے جب بھی ملا ہوں مجھے میرا سایہ جسے میں وہیں چھوڑ آیا جہاں وہ خیالوں کی وادی میں خواہش کی تتلی کے پیچھے اڑا جا رہا تھا تمہاری گھنی زلف کی بدلیوں میں زمیں سے بہت دور لیکن میرے پیر میں ڈور ایسی بندھی تھی کہ جس نے مجھے ...

مزید پڑھیے

دیار خواب

دیار خواب کے ادھر مسافروں کی بستیاں نشیلی کالی بدلیاں شرابیوں کی ٹولیاں نشہ بڑھاتی دھانی دھانی چیزیاں مہکتے کنوارے جسم چلمنوں کی تیلیاں سجیلی ریشمی پروں میں رنگ برنگی تتلیاں پکی پکائی عورتوں میں شہوتوں کی بجلیاں ذرا سی رات بھیگ جائے، پھر سنو اندھیرے کی زباں تھکے تھکائے جسم ...

مزید پڑھیے
صفحہ 953 سے 960