مجھے رستہ نہیں ملتا
مجھے رستہ نہیں ملتا میں جوہڑ میں کھلے پھولوں کے حق میں بول کر دلدل کی تہہ میں دھنس گیا ہوں میں نہیں کہتا کہ یہ کس آسماں کا کون سا سیارۂ بد ہے مگر یہ تہہ زمیں کی آخری چھت ہے یہاں دن ہی نکلتا ہے نہ شام عمر ڈھلتی ہے پرندہ بھی نہیں کوئی کہ جس کے پاؤں سے کوئی نوشتہ باندھ کر بھیجوں تو ...