شاعری

یک جان دو قالب

دونوں ایک ہی ذات میں گم تھے باتیں کرتے ہنستے کھیلتے چلتے چلتے اک دوجے کو دیکھ بھی لیتے آب و ہوا اور مٹی ایک ایک اٹھان دونوں اپنے وقتوں کی آواز بنے تھے دھن دریچے چہرہ مہرہ ایک تھا ان کا ایک سی رنگت ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے پھر بھی دونوں الگ الگ تھے

مزید پڑھیے

وفا اور عشق کے رشتے بڑے خوش رنگ ہوتے ہیں

وفا اور عشق کے رشتے بڑے خوش رنگ ہوتے ہیں ادائیں دل کشا ان کی رسیلے ڈھنگ ہوتے ہیں کسی موسم کسی رت میں کسی بھی شاخ پر اکثر یہ ننھی کونپلیں بن کر چمن آباد کرتے ہیں سکوں دیتے ہیں ذہنوں کو دلوں کو شاد کرتے ہیں خدا جانے یہ پروانے یہ مستانے یہ دیوانے مروت کی محبت کی عبادت کی بلندی سے کسے ...

مزید پڑھیے

دستک

درد کے گہرے سناٹے میں قریۂ جاں کے بند کواڑ پہ دستک دے کر ہلکی سی سرگوشی کر کے کوئی تو پوچھے اب تک زندہ رہنے والو ہجر کے گہرے سناٹوں میں اپنے آپ سے بچھڑے لوگو کیسے زندہ رہ لیتے ہو

مزید پڑھیے

پروں میں شام ڈھلتی ہے

کہاں جانا تھا مجھ کو کس نگر کی خاک بالوں میں سجانا تھی مجھے کن ٹہنیوں سے دھوپ چننا تھی کہاں خیمہ لگانا تھا مری مٹی رہ سیارگاں کی ہم قدم نکلی مری پلکوں پہ تارے جھلملاتے ہیں بدن میں آگ جلتی ہے مگر پاؤں میں خوں آشام رستے لڑکھڑاتے ہیں یہ کیا شیرازہ بندی ہے یہ میری بے پری کس کنج سے ہو ...

مزید پڑھیے

اسے میں نے نہیں دیکھا

وہ کیسی ہے اسے میں نے نہیں دیکھا سنا ہے وہ زمیں زادی دھنک سے اپنے خوابوں کے افق گل رنگ رکھتی ہے مرے خاشاک سے آگے کسی منظر میں رہتی ہے ہوا کے گھر میں رہتی ہے وہ کس سورج کا حصہ ہے وہ کس تارے کی مٹی ہے اسے میں نے نہیں دیکھا مری آنکھوں سے لے کر اس کی آنکھوں تک کسے معلوم ہے کتنے ستارے ...

مزید پڑھیے

وہ ہنستی ہے تو اس کے ہاتھ روتے ہیں

کسی کے بعد اپنے ہاتھوں کی بد صورتی میں کھو گئی ہے وہ مجھے کہتی ہے تابشؔ! تم نے دیکھا میرے ہاتھوں کو برے ہیں ناں؟ اگر یہ خوب صورت تھے تو ان میں کوئی بوسہ کیوں نہیں ٹھہرا'' عجب لڑکی ہے پورے جسم سے کٹ کر فقط ہاتھوں میں زندہ ہے صراحی دار گردن نرم ہونٹوں تیز نظروں سے وہ بد ظن ہے کہ ان ...

مزید پڑھیے

ادھوری نظم

اندھیری شام کے ساتھی ادھوری نظم سے زور آزما ہیں بر سر کاغذ بچھڑنے کی سنو ۔۔۔تم سے دل محزوں کی باتیں کہنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے کہیں سطر شکستہ کی طرح ہیں چار شانے چت کہیں حرف تمنا کی طرح دل میں ترازو ہیں سنو۔۔۔ ان نیل چشموں سخت جانوں بے زبانوں پر جو گزرے گی سو گزرے گی مگر میں ...

مزید پڑھیے

اندیشۂ وصال کی ایک نظم

شفق کے پھول تھالی میں سجائے سانولی آئی چراغوں سے لویں کھینچیں دریچوں میں نمی آئی میں سمجھا اس سے ملنے کی گھڑی آئی ہوا جاروب کش تھی آسماں آثار تنکوں کی جسے اپنی سہولت کے لیے دنیا... یہ تن آسان دنیا... اک مروت میں ہجوم خلق کہتی ہے مری آنکھیں تہی گلدان کی صورت منڈیروں پر گلی سے اٹھنے ...

مزید پڑھیے

پاگل

وہ آیا شہر کی طرف اک اس کی چاپ کی کھنک قیام روز عشق کی پکار تھی کہ برگ و بار خاک کا فشار تھی وہ آیا شہر کی طرف لپک کے اینٹ کی طرف وہ اس طرح بڑھا کہ جیسے نان خشک پر کوئی سگ گرسنہ گر پڑے وہ گالیوں بھری زباں گلی گلی چھلک پڑی ہر ایک جیب اس کی انگلیوں سے تار تار تھی کہ اس کی تھوتھنی سے ...

مزید پڑھیے

ابھی اس کی ضرورت تھی

صف ماتم بچھی ہے سخن کا آخری در بند ہونے کی خبر نے کھڑکیوں کے پار بیٹھے غمگساروں کو یہ کیسی چپ لگا دی ہے یہ کس کی ناگہانی موت پر سرگوشیوں کی آگ روشن ہے کسی کے کنج لب سے کوئی تارا میرے دل پر آن پڑتا ہے برا ہو موت کا جس نے مرے فریاد رس کی جان لے لی ہے ابھی اس کی ضرورت تھی میں اس دنیا کے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 952 سے 960