یک جان دو قالب
دونوں ایک ہی ذات میں گم تھے باتیں کرتے ہنستے کھیلتے چلتے چلتے اک دوجے کو دیکھ بھی لیتے آب و ہوا اور مٹی ایک ایک اٹھان دونوں اپنے وقتوں کی آواز بنے تھے دھن دریچے چہرہ مہرہ ایک تھا ان کا ایک سی رنگت ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے پھر بھی دونوں الگ الگ تھے