شاعری

آزادی کا گیت

دیس ہوا آزاد ہمارا گھر گھر دیپ جلائیں گے مل کر جشن منائیں گے ہم گیت خوشی کے گائیں گے اپنے باغ کے مالی ہم ہیں ہم ہی خود رکھوالے ہیں نئے نرالے پھولوں سے ہم پھلواری مہکائیں گے بھوک غریبی اور بے کاری دور کریں گے بھارت سے دیس کے کونے کونے میں ہم خوشحالی پھیلائیں گے تن من کے سب روگ ...

مزید پڑھیے

سروجنی نائیڈو

شاعرہ بھی تھی خطیبہ بھی سیاست داں بھی تھی نوجوانان‌‌ وطن کی تو چہیتی ماں بھی تھی تو رہی ساز محبت پر ہمیشہ نغمہ خواں ہے امر تو آج بھی اے بلبل ہندوستاں مادر ہندوستاں کا تجھ سے قائم ہے وقار طبقۂ نسواں کو تیری ذات وجہ افتخار ہند کی تحریک آزادی میں تیرا نام ہے قابل تقلید تیرا وہ ...

مزید پڑھیے

گماں

بس ایک چھوٹی سی بحث پر ہی چلے گئے ہو کنارہ کر کے بہت سے دعوے کیے تھے تم نے میں پہلے دن سے ہی جانتا تھا تمام دعوے ہیں وقتی جذبوں کے زیر سایہ کبھی کہا تو نہیں یہ لیکن میں جانتا تھا تمہیں محبت نہیں ہے مجھ سے فقط گماں ہے میں مانتا ہوں کہ پیار آتا تھا مجھ پہ تم کو سو پیار آنے کو پیار ہونا ...

مزید پڑھیے

چائے کیسی لگی

نہیں میں تو بس کہہ رہی تھی کہ وہ خیر چھوڑیں اسے کچھ کہو بھی سہی اک سہیلی یہ کہتی ہے آپ اس سے بھی خیر کچھ بھی نہیں چائے کیسی لگی

مزید پڑھیے

دائرے

میں اپنی سوچوں کے دائروں میں تلاشتا ہوں اسی بشر کو جو دائروں کا مکیں نہیں ہے جسے ہے پابندیوں سے نفرت جو بندشوں کا امیں نہیں ہے جو سامنے ہے مگر نہیں ہے میں اپنی سوچوں کے زاویوں کو بدلنا چاہوں تو کیسے بدلوں کہ دائرے تو ہیں تین سو ساٹھ ڈگریوں کی فصیل ایسی نہیں ہے راہ فرار جس میں میں ...

مزید پڑھیے

انتظار

ایک ناکام سی امید لئے روز کرتا ہوں انتظار ترا اور اک لفظ ناامیدی کا تھام لیتا ہے آ کے ہاتھ مرا اور کہتا ہے مجھ سے چپکے سے اب نہ آئے گا کوئی کس کے لئے کیوں سجائے ہوئے ہے یہ محفل

مزید پڑھیے

بے معنی

کچھ لفظ بہت بے معنی سے کچھ لفظ بہت ہی بے مطلب جب ذہن میں بے معنی آ کر رک جاتے ہیں بے مطلب ہی تو ایسا لگتا ہے مجھ کو یہ دنیا یہ جینا مرنا یہ پیار محبت یہ رشتے یہ رنج و غم یہ درد و الم یہ خوشیاں یہ گہما گہمی یہ سب کچھ ہی بے معنی ہے یہ سب کچھ ہی بے مطلب ہے

مزید پڑھیے

جائزہ

زندگی کی طویل راتوں میں جب کبھی جائزہ لیا میں نے زندگی کو عجیب پایا ہے اور میں سوچتا ہی رہتا ہوں زندگی بھی عجیب چکر ہے کبھی شہنائیوں میں ڈستی ہے کبھی شہنائیوں میں بستی ہے کبھی دیوانہ وار ہنستی ہے اور کبھی موت کو ترستی ہے الغرض اک سراب ہے ہستی کتنی خانہ خراب ہے ہستی

مزید پڑھیے

کوہ ندا سے آگے

اسی گنبد ہشت پہلو کے آگے وہی ایک کیکر کا چھدرا سا پیڑ جہاں آ کے پہلے پہل میں رکا تھا وہیں آ کھڑا ہوں مگر اس جھروکے کا جس میں سے اک خوبصورت سا چہرہ مجھے دیکھ کر پہلے رویا تھا اور پھر ہنسا تھا نشاں تک نہیں ہے

مزید پڑھیے

بچھڑا لمحہ

کھجوروں کے پیڑوں سے تھوڑا سا اوپر جواں مستعد چاند تنہا کھڑا مرے گھر مرے شہر کی پہرہ داری میں مصروف تھا چاند کی نرم دوشیزہ کرنیں مرے واسطے نیند کا جال سا بن رہی تھیں اچانک فضاؤں میں عنقریب چیخے زمیں کی طرف بھوکی چیلوں کی مانند جھپٹے جھپٹتے رہے زمان و مکاں ایک لمحے پہ آ کر ٹھہر سے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 6 سے 960