تو کیا
نکلتے دن کے دامن میں گماں ہیں کہ اب اس دور میں بے کیفیاں ہیں ہمیں رکھا ہے وقت بے ہنر میں سکوں لوٹا گیا اس مستقر میں اترتی جا رہی ہے رات گھر میں تری یادوں میں ٹھہرے دن کہاں ہیں سمندر کی سیاہی سے پرے اک جھلملاہٹ تھی گئی یادوں کی آہٹ تھی کسی احساس کا عنواں نہیں تھا تلملاہٹ تھی تمنا ...