کشمکش
کبھی کی ہو چکی ہوتی ہماری اور اک شادی ہمارے درمیاں حائل جو اک پاجی نہیں ہوتا وہ لڑکی اب بھی راضی ہے مگر شادی کرے کیسے کہ اس لڑکی کا جو پوتا ہے وہ راضی نہیں ہوتا
کبھی کی ہو چکی ہوتی ہماری اور اک شادی ہمارے درمیاں حائل جو اک پاجی نہیں ہوتا وہ لڑکی اب بھی راضی ہے مگر شادی کرے کیسے کہ اس لڑکی کا جو پوتا ہے وہ راضی نہیں ہوتا
حیا گرتی ہوئی دیوار تھی کل شب جہاں میں تھا نظر اٹھنا بہت دشوار تھی کل شب جہاں میں تھا جنہیں ساڑی میں آنا تھا وہ پتلونوں میں آئیں تھیں تمیز مرد و زن دشوار تھی کل شب جہاں میں تھا نظر کے کوفتے رخ کے پراٹھے وصل کے شربت مکمل دعوت دیدار تھی کل شب جہاں میں تھا زلیخائیں بضد تھیں ایک ...
بہ مجبوری ہر اک رنج و محن لکھنا پڑا مجھ کو بنا کر خود کو موضوع سخن لکھنا پڑا مجھ کو زبانیں جن کی قینچی کی طرح چلتی تھیں شوہر پر انہیں شیریں زباں شیریں دہن لکھنا پڑا مجھ کو ہر اک محفل میں جلووں کی جو رشوت پیش کرتی تھیں وہ جیسی بھی تھیں جان انجمن لکھنا پڑا مجھ کو مری مجبوریوں نے ...
مری مجبوریوں نے نازکی کا خون کر ڈالا ہر اک گوبھی بدن کو گل بدن لکھنا پڑا مجھ کو
میری بیوی کا جن سے رشتہ ہے صرف ان سے ہی رشتہ داری ہے اور جتنے عزیز ہیں میرے ان سے دن رات چاند ماری ہے
کیا کیا ہے عرض کرنا یہ عرض پھر کروں گا پھر عرض کیا کروں گا یہ عرض پھر کروں گا جب تک رہے گا رسہ رسہ کشی رہے گی کب تک رہے گا رسہ یہ عرض پھر کروں گا ملا نے کیا کیا تھا ملا نے کیا کیا ہے ملا کرے گا کیا کیا یہ عرض پھر کروں گا رشوت جو روکنا ہے جائز اسے کرا لو یہ جائزہ ہے کس کا یہ عرض پھر ...
لباس نو میں رکھی ہے رعایت ایسی ٹیلر نے کہ اس میں ہیرا پھیری جنس کی معلوم ہوتی ہے پتہ مشکل سے چلتا ہے مذکر اور مؤنث کا کبھی معلوم ہوتا ہے کبھی معلوم ہوتی ہے
ٹوٹا تھا گھر میں کیا کیا یہ عرض پھر کروں گا پھر گھر میں کیا ہوا تھا یہ عرض پھر کروں گا اتنا بڑا لفافہ اور کام تھا ذرا سا کیا کام تھا ذرا سا یہ عرض پھر کروں گا ملا نہ کیا کیا تھا ملا نہ کیا کیا ہے ملا کرے گا کیا کیا یہ عرض پھر کروں گا دیکھا جو شیخ جی نے بولے کہ مختصر ہے وہ کیا ہے ...
اک یار سے میں نے کہا دو لفظ ہی لکھ دو چلتی ہے سفارش یہاں اور تم ہو صحافی کہنے لگے کافی کی پیالی کو اٹھا کر بس نام بتا دینا مرا نام ہے کافی
ٹریفک کے اک افسر سے یہ بولیں ایک محترمہ ہمیں مجبور کیوں کرتے ہو تم رکنے رکانے پر ہماری عمر اب ایسی ہے ہم سیٹی نہیں سنتے رکا کرتے تھے خوش ہو کر کبھی سیٹی بجانے پر