کراچی سے چلا
میں کراچی سے چلا جب گرمیاں زوروں پر تھیں اس قدر سردی یہاں ہے مجھ کو ہیٹر چاہئے میرے رہنے کا ٹھکانہ بھی نہیں کوئی یہاں مہرباں سی ایک مجھ کو بے بی سیٹر چاہئے
میں کراچی سے چلا جب گرمیاں زوروں پر تھیں اس قدر سردی یہاں ہے مجھ کو ہیٹر چاہئے میرے رہنے کا ٹھکانہ بھی نہیں کوئی یہاں مہرباں سی ایک مجھ کو بے بی سیٹر چاہئے
ہم کو امریکہ کا ویزا ملٹی پل تو مل گیا چھ مہینے رہ سکیں گے یہ اشارہ ہے ہمیں اور رکنا ہو تو شادی کر کے رک سکتے ہیں ہم لولی لڑکی اور کانی بھی گوارا ہے ہمیں
ہم کو تو بڑھاپے نے کہیں کا نہیں چھوڑا محرومئ جذبات کو بیٹھے ہیں چھپائے خوش ہوتے ہیں ہم لوگ اگر کوئی حسینہ اس عمر ہم پر کوئی تہمت ہی لگائے
کوئی گاہک لوٹ جائے یہ تو ممکن ہی نہیں میں نے حاصل کر لیا ہے سیل مینی میں کمال ایک گاہک کو ضرورت ٹائیلٹ پیپر کی تھی میں نے اس کو دے دیا ہے اس کے بدلے ریگ مال
حج ادا کرنے گیا تھا قوم کا لیڈر کوئی سنگ باری کے لیے شیطان پر جانا پڑا ایک کنکر پھینکنے پر یہ صدا آئی اسے تم تو اپنے آدمی تھے تم کو یہ کیا ہو گیا
اطبا نے بتایا ہے جناب قاسمی کو یہ ہوئی ہیں آپ کے دل کی کم از کم چار ویسل بند نکالیں ٹانگ سے اور جوڑ دی ہیں دل کے پہلو میں لگا ہے خوب کیا کم خواب میں یہ ٹانگ کا پیوند
اس ملک میں شاعر کی پذیرائی بہت ہے موسم ہے سہانا یہاں آنا ہو تو آئیں مہمان نوازی تو بہت ہوتی ہے لیکن سگریٹ کی جو حاجت ہو تو گیراج میں جائیں
ہم کو امریکہ تو بالکل راس آیا ہی نہیں اپنی ناکامی پہ آؤ مل کے سب تھو تھو کریں مال و دولت اب بھی مل سکتے ہیں ہم سب کو مگر لاٹری نکلے ہماری یا کسی پر سو کریں
جب بھی تجھے دیکھا کسی بحران میں دیکھا نسیان میں دیکھا کبھی ہذیان میں دیکھا گوبھی بھی ہے گر پھول تو بس اتنا بتا دے کالر میں کبھی یا کبھی گلدان میں دیکھا ایسا نہ ہو ببن کو کوئی چیل اچک لے ننگا اسے دیکھا کبھی بنیان میں دیکھا بیوی نے دبا رکھا ہے اب ٹیٹوا شاید میں نے جو اسے حال ...
کس طرح اس سے جان چھڑاؤں میں کیا کروں مجھ کو ہے یہ خیال ہراساں کیے ہوئے جانے کا نام ہی نہیں لیتا وہ نیک بخت ''مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے''