آگاہی
ہمارے علم نے بخشی ہے ہم کو آگاہی یہ کائنات ہے کیا اس زمیں پہ سب کیا ہے مگر بس اپنے ہی بارے میں کچھ نہیں معلوم مروڑ کل سے جو معدے میں ہے سبب کیا ہے
ہمارے علم نے بخشی ہے ہم کو آگاہی یہ کائنات ہے کیا اس زمیں پہ سب کیا ہے مگر بس اپنے ہی بارے میں کچھ نہیں معلوم مروڑ کل سے جو معدے میں ہے سبب کیا ہے
ویسے تو زندگی میں کچھ بھی نہ اس نے پایا جب دفن ہو گیا تو شاعر کے بھاگ جاگے وہ سادگی میں ان کو دو سامعین سمجھا بس آٹھویں غزل پر منکر نکیر بھاگے
''صاحب زادے کرتے کیا ہیں'' لڑکی والوں نے پوچھا ''جب دیکھو فارغ پھرتے ہیں یا پیتے تمباکو ہیں!'' لڑکے کی اماں یہ بولیں کام کرے اس کی جوتی دو بھائی بھتہ لیتے ہیں ابا خیر سے ڈاکو ہیں
ہم چھوڑ کے گھر اپنا آباد کریں صحرا جائیں تو کہاں جیدیؔ ایسی ہے پریشانی بچوں کو سلا دیں تو ہمسایہ نہیں سوتا فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
تمہارے جمپروں پر ساڑھیوں پر اور غراروں پر لٹے جاتے ہیں دل والے کئی سلمیٰ ستاروں پر الیکشن اب بھلا کیسے لڑیں گے ہم رقیبوں سے کمائی تو اڑا ڈالی ہے ساری اشتہاروں پر پھسل کر رہ گئے ہیں ناگہاں کیلے کے چھلکے سے کمندیں ڈالنے گھر سے چلے تھے چاند تاروں پر برا انگریز کو کہتا ہوں پٹتا ...
قیامت بن کے ٹوٹی وہ کبھی بن کر عذاب آئی بلائے ناگہانی سے نہیں کم میری ہمسائی وہ قینچی کی طرح اپنی زباں جس دم چلاتی ہے وہ خود سر ایک پل میں سارا گھر سر پر اٹھاتی ہے زباں کے ساتھ انگشت شہادت بھی نچاتی ہے مجھے جو بات بھی ہو یاد فوراً بھول جاتی ہے یہ سچ ہے اس کے آگے چل نہیں سکتی زباں ...
زمیں کا رقص پیہم سرد لوہے کی نکیلی کیل، زنجیر کشش، شانے اور اک نو منزلہ بلڈنگ اور اس نو منزلہ بلڈنگ کو اپنے ناتواں شانوں کی باقی ماندہ قوت سے سنبھالے اس فسردہ شہر کی سب سے بڑی فٹ پاتھ پر ٹانگیں پسارے ہر گزرتے واہمے کو تکنے والا میں یہ برفیلی ہوا تھی یا کوئی لمحہ صبا رفتار لمحہ ...
یقیناً سر چھپانے کی غرض سے ہمیں چھوٹا سا گھر بھی چاہئے ہے مگر گرمی کے ہیں تیور یہی تو ائیر کنڈیشز بھی چاہئے ہے
خلائی دور ہے تکرار کا زمانہ ہے ہر ایک قدر سے انکار کا زمانہ ہے شعورؔ آپ کا پیار آپ کو مبارک ہو یہ پیار کا نہیں پی آر کا زمانہ ہے
زباں زباں پہ ہے اعلان ترک تمباکو طیور عام یہ پیغام ہر طرف کر دیں ہمیں یہ فکر ہے لاحق کہ ایسے عالم میں نواب زادہ نہ حقے کو بر طرف کر دیں