شاعری

نہ ہوں پیسے تو استقبالیوں سے کچھ نہیں ہوگا

نہ ہوں پیسے تو استقبالیوں سے کچھ نہیں ہوگا کسی شاعر کو خالی تالیوں سے کچھ نہیں ہوگا نکل آئی ہے ان کے پیٹ سے پتھری شکر کوٹیڈ جو کہتی تھی کہ میٹھی چھالیوں سے کچھ نہیں ہوگا ''خودی'' کو بیچ کر ''شاہین'' کو بھی ذبح کر ڈالا ہم ایسے زود ہضم اقبالیوں سے کچھ نہیں ہوگا وہی حضرات تقسیم وطن ...

مزید پڑھیے

میں تو اہل ہوں کسی اور کا مری اہلیہ کوئی اور ہے

میں تو اہل ہوں کسی اور کا مری اہلیہ کوئی اور ہے میں ردیف مصرعۂ عشق ہوں مرا قافیہ کوئی اور ہے جو لغت کو توڑ مروڑ دے جو غزل کو نثر سے جوڑ دے میں وہ بد مذاق سخن نہیں وہ جدیدیا کوئی اور ہے مجھے اپنے شعر کے سارقوں سے کوئی گلہ تو نہیں مگر جو کتاب چھاپ کے کھا گیا وہ فراڈیا کوئی اور ...

مزید پڑھیے

دو بھی کیوں!

میرے دوست کے چار عدد جو بچے ہیں عقل کے یوں تو چاروں ہی کچھ کچے ہیں لیکن بعضی بات ایسی کہہ جاتے ہیں اماں باوا حیرت میں رہ جاتے ہیں اک دن بولے آ کر اپنے ابو سے ہم میں سے دو کون سے والے ہیں اچھے ان کو تو اسکول میں داخل کروا دیں دو کو واپس اللہ کے گھر پہنچا دیں بلکہ چاروں ہی کو واپس کروا ...

مزید پڑھیے

کسمسانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

کسمسانے کی اجازت نہیں دی جائے گی بلبلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ایک رقاص نے گا گا کے سنائی یہ خبر ناچ گانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اس سے اندیشۂ فردا کی جوئیں جھڑتی ہیں سر کھجانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اس سے تجدید تمنا کی ہوا آتی ہے دم ہلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اس کے ...

مزید پڑھیے

میری شکل

خود ہی خنجر بہ دست ہوں ہر دم اور خود ہی لہو لہان بھی ہوں میری مشکل عجیب مشکل ہے میں مہاجر بھی ہوں پٹھان بھی ہوں

مزید پڑھیے

مخمصہ

پہنچ گئے ہیں الیکشن کے پھر دوارے پر تمہی بتاؤ مرے بھائی کس طرف جائیں ادھر میاں ہے ادھر مائی کس طرف جائیں ادھر کنواں ہے ادھر کھائی کس طرف جائیں

مزید پڑھیے

صدائے درویش

صبح تقریر یہاں شام کو تقریر وہاں چیختے چیختے لیڈر کا گلا بیٹھ گیا ہر گلی کوچے میں دن رات لگاتا ہے صدا جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا

مزید پڑھیے

دو دو مزے

وہ کلوز اپ تو کسی بھی انکلوژر میں نہ تھا اپنے ٹی وی پر جو ہم ہو کر مگن دیکھا کئے پھر یہاں حاصل تھا گویا بے ٹکٹ دو دو مزے گاہ انگلش گاہ پنجابی میں رن دیکھا کیے

مزید پڑھیے

میں ٹیوٹر تھا

میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا کہیں میں صوفے پہ بیٹھا کہیں چٹائی پر کہیں ٹکایا گیا کھری چارپائی پر کہیں سے نکلا کسی لعل کی پٹائی پر کسی عزیز نے ٹرخا دیا مٹھائی پر میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا مدرسی کی بندریا نچاتا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 25 سے 42