شاعری

زباں کیوں ہو؟

کسی کو دے کے ''ووٹ'' اپنا نواسنج فغاں کیوں ہو؟ جو سر خالی ہو ''بھیجے'' سے تو پھر منہ میں زبان کیوں ہو؟ ہمارے لیڈروں کی کامیابی کا یہ نکتہ ہے! ''جو کرنا ہے'' رکھو دل میں وہ پبلک میں بیاں کیوں ہو؟ کہا صیاد نے پر نوچ کر صحن گلستاں میں! گھٹن ہو لاکھ سینے میں مگر آہ و فغاں کیوں ہو؟ بڑھاپے میں ...

مزید پڑھیے

شکوۂ کلرک

کیوں میں گھاٹے میں رہوں سود فراموش رہوں موقع مل جائے تو دفتر میں ہی مدہوش رہوں ڈانٹ افسر کی سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں ''ہمنوا'' میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں ''مسکہ بازی'' کے سبب تاب سخن ہے مجھ کو در حقیقت بہت عرصہ سے گھٹن ہے مجھ کو ہے بجا کام کی چوری میں تو مشہور ہیں ہم پیٹ رشوت سے ...

مزید پڑھیے

ہے اب تو حسیناؤں کا حلقہ مرے آگے

ہے اب تو حسیناؤں کا حلقہ مرے آگے سلمیٰ مرے پیچھے ہے زلیخا مرے آگے اب بچ کے کہاں جائے ہر اک سمت ہے دیوار بیوی مرے پیچھے ہے تو بچہ مرے آگے بے پردہ وہ کالج میں تو پھرتی ہیں برابر اوڑھا مری محبوب نے برقعہ مرے آگے میں اب کے الیکشن میں گنوا بیٹھا ضمانت ڈوبا مری قسمت کا ستارہ مرے ...

مزید پڑھیے

ہزل

غیر سے تھوڑی سی اک دن بے وفائی کر کے دیکھ کتنا سچا پیار ہے میرا ٹرائی کر کے دیکھ خط نہیں لکھتا ہوں میں مجھ کو نہ یہ الزام دے اپنی الماری کی بھی ایک دن صفائی کر کے دیکھ سوئی دھاگہ ہاتھ میں ہے اور کوئی کپڑا نہیں کھال حاضر ہے مری اس پر کڑھائی کر کے دیکھ روبرو ہو یار تو رخ اپنا اس سے ...

مزید پڑھیے

جو بھی تیرے قریب ہو جائے

جو بھی تیرے قریب ہو جائے اس کی صورت عجیب ہو جائے دل کا میدان ناپنے کے لیے وہ سراپا جریب ہو جائے حب الفت کرے کوئی ایجاد دشمن جاں حبیب ہو جائے نبض بھی دیکھے حال بھی پوچھے کاش دلبر طبیب ہو جائے بھوک کا کچھ اسے بھی ہو احساس وہ ستم گر ادیب ہو جائے گفتگو کے یہ نقرئی جھٹکے باؤلا ...

مزید پڑھیے

جھوٹ ہے دل نہ جاں سے اٹھتا ہے (ردیف .. ')

جھوٹ ہے دل نہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں درمیاں سے اٹھتا ہے رات بھر دھونکنے پہ مشکل سے ''شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے'' مار لاتا ہے جوتیاں دو چار ''جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے'' ہم ڈنر کھا کے اس طرح اٹھے ''جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے'' جل گیا کون میرے ہنسنے پر ''یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ...

مزید پڑھیے

ایسا ہوا کہ آج پھر آئے وہ خواب میں

ایسا ہوا کہ آج پھر آئے وہ خواب میں یہ خاکسار رہ گیا الجھا حساب میں جس دن سے بن گیا ہوں میں ہڈی کباب میں وہ شوخ پڑ گیا ہے عجب پیچ و تاب میں دل کے بجائے کیسے وہ پہلو میں آ گیا اے شیخ جی پڑھا یہ سبق کس کتاب میں اتنا صریح ان کی نگاہوں کا تھا سوال میں ہڑبڑا کے رہ گیا ان کے جواب میں لب ...

مزید پڑھیے

پہلے ہوتا تھا نظر کے تیر سے

پہلے ہوتا تھا نظر کے تیر سے کام اب ہوتا ہے وہ کف گیر سے مل گئے تھے ایک دن تقدیر سے بھاگتے ہیں اب نظر کے تیر سے عشق اور پھر ہوٹلوں کی روٹیاں بھاگتا پھرتا ہے رانجھا ہیر سے شوخ تھا لپٹا ہماری پیٹھ سے ہم چغد لپٹے رہے تصویر سے وقت تھا دو چار بچے ہو گئے اب نہ کچھ ہوگا کسی تدبیر ...

مزید پڑھیے

کچھ نئے نقش محبت میں ابھارو یارو

کچھ نئے نقش محبت میں ابھارو یارو سر کسی شوخ کی بلڈنگ سے مارو یارو زلف کے پیچ میں لٹکے ہوئے شاعر کا وجود تھک چکا ہوگا اسے مل کے اتارو یارو وہ بھرے گھر سے گھسیٹے لیے جاتی ہے مجھے کوئی بڑھ کر مری بیوی کو پکارو یارو دل کے فٹ پاتھ کو ہموار بنانے کے لیے اس سے دس بیس حسینوں کو گزارو ...

مزید پڑھیے

شیخ جب زیر بام ہوتا ہے

شیخ جب زیر بام ہوتا ہے کتنا نازک مقام ہوتا ہے عشق اولاد کر رہی ہے مگر میرا جینا حرام ہوتا ہے جس جگہ پر حسین پٹتے ہیں اس جگہ پہ غلام ہوتا ہے دل میں لڈو سے پھوٹتے ہیں مرے جب بھی وہ ہم کلام ہوتا ہے شب میں کوئی ہو اس کے گھر لیکن صبح کو میرا نام ہوتا ہے

مزید پڑھیے
صفحہ 21 سے 42