قربانی
اک کنکٹے کا آج یہ اعلان عام ہے نیتا ہیں ہم ہمارا تو قربانی کام ہے نیتا کا دعویٰ سن کے میں یہ سوچنے لگا قربانی کنکٹے کی تو یارو حرام ہے
اک کنکٹے کا آج یہ اعلان عام ہے نیتا ہیں ہم ہمارا تو قربانی کام ہے نیتا کا دعویٰ سن کے میں یہ سوچنے لگا قربانی کنکٹے کی تو یارو حرام ہے
کتنی دولت ہے نیتا کلن پر ان کے جیسے امیر بن جاتے دستخط تو تمہیں بھی آتے ہیں ابا تم بھی وزیر بن جاتے
ایک شاعر نے غزل بھیجی کسی اخبار میں تاکہ شہرت ہو ادب کے معتبر بازار میں کچھ دنوں تو اس کو چھپنے کا رہا اک انتظار پہنچا آخر مالک اخبار کے دربار میں ہو کے برہم جاتے ہی شکوہ اڈیٹر سے کیا یہ تو بتلائیں کمی کیا تھی میرے اشعار میں؟ آپ کو یہ کیا خبر تھا مجھ کو کتنا اضطراب نیند ہفتوں تک نہ ...
اس مرتبہ بھی آئے ہیں نمبر ترے تو کم رسوائیوں کا کیا مری دفتر بنے گا تو بیٹے کے منہ پہ دے کے چپت باپ نے کہا پھر فیل ہو گیا ہے منسٹر بنے گا تو
مرے ذوق ادب کو دیر میں آرام آئے گا کہیں پچھلے پہر تک شاعرہ کا نام آئے گا ابھی تو سلسلہ ہے شاعروں کی بے نوائی کا صراحی آئے گی خم آئے گا تب جام آئے گا
پہلی بار آئی دلہن سسرال وہ بھی بے نقاب شرم آنکھوں سے جھلکتی ہے نہ ہے چہرے پہ آب جیسے رخ پر جھریاں ہوں جیسے بالوں میں خضاب کرکرا سا ہو گیا شادی کا حاصل کیا کروں اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں کان کس کے گرم کر دوں چانٹا کس کے جاڑ دوں کس کا دامن پھاڑ دوں کس کا گریباں پھاڑ ...
ان کے گھر میں چاند اور تارے اپنے گھر میں آگ اپنی اپنی قسمت پیارے اپنا اپنا بھاگ آج وہ شاید میرے گھر میں رات گئے تک آئیں بھور سمے سے چھت پر اپنی بول رہا ہے کاگ یہ جگ تو کل جگ ہے پیارے اس جگ میں آنند کہاں جتنی جلدی بھاگ سکے تو اس دھرتی سے بھاگ بوڑھی دھرتی ایسی ناری جس کے سو سو ...
مثال آئینہ یارو نکھر گیا کل شب عجیب سانحہ دل پہ گزر گیا کل شب بساط دشت پہ یوں چاندنی تھی رقص کناں کہ جیسے چاند کا ہر زخم بھر گیا کل شب سیاہ رات کا وہ راہب چراغ بکف سنو وہ کرمک شب تاب بھر گیا کل شب کچھ اتنا چہرہ بھیانک تھا خواب میں اس کا کہ اپنے آپ سے پاشاؔ بھی ڈر گیا کل شب
شہر آشوب میں گل ہائے وفا کس کو دوں کون مخلص ہے میں الزام وفا کس کو دوں شہر کے شور میں صحراؤں کا سناٹا ہے دیر سے سوچ رہا ہوں کہ صدا کس کو دوں وہ تو یوسف تھا مگر کوئی بھی یعقوب نہیں خوں میں ڈوبی ہوئی میں اس کی قبا کس کو دوں شہر میں ویسے مہربان بہت سارے تھے کون قاتل تھا مرا ہائے دعا ...
برفانی ہواؤں پہ ترا شک ہوا کیسے احساس صدا موجب دستک ہوا کیسے کیا شہر وفا مستقر بو الہوساں ہے چہرہ پری چہروں کا بھیانک ہوا کیسے اے لالہ رخو عشوہ گرو تنگ قباؤ یہ لطف و کرم ہم پہ اچانک ہوا کیسے شیوہ تو ترا صرف ستم تھا ستم ایجاد اخلاص و مروت ترا مسلک ہوا کیسے اب جاں سے گزر جا کہ ...