رو رو کے یاد کرتی ہوں فادر مدر کو میں
رو رو کے یاد کرتی ہوں فادر مدر کو میں دکھتی ہے ساس ہی مجھے دیکھوں جدھر کو میں
رو رو کے یاد کرتی ہوں فادر مدر کو میں دکھتی ہے ساس ہی مجھے دیکھوں جدھر کو میں
جب شام جنت میں ہوئی باغوں میں ہر سو گھوم کر حوریں مری گھر آ گئیں چوما ہر اک کا میں نے منہ چمکار کر پچکار کر میں نے انہیں بٹھلا لیا پر جب گنا میں نے انہیں جو سب سے پیاری ان میں تھی تھی وہ ہی گم رہتا تھا گھر کے پاس ہی کافر ادا اک مولوی میں نے گرج کر یہ کہا اس سے کہ او ملعون ادھر آ تو ...
جمیلہ اب اٹھو نہ آنسو بہاؤ نہیں وقت رونے کا دریاں بچھاؤ یہ دنیا ہے فانی گیا جانے والا وہ رونے سے واپس نہیں آنے والا نہ بیکار اب تم دہائی مچاؤ اٹھو اپنے گھر میں صفائی کراؤ معزز معزز جو آئیں گے مہماں بہت ناک اور بھوں چڑھائیں گی اماں تم ان کے لیے جلد حقے منگاؤ میاں بھاگ کر چائے لپٹن ...
مرے ننھے چاند مت رو مرے شاہزادے سو جا تری ضد کہیں اے ظالم نہ مجھے رلا دے سو جا تیرا باپ میرے گھر سے مجھے ورغلا کے لایا ہوا وصل در جہنم جو مجھے بھگا کے لایا تھا جمالؔ نام اس کا اے جمال زادے سو جا تری ضد کہیں اے ظالم نہ مجھے رلا دے سو جا مجھے موہنے کو جس نے کیا روز مجھ سے دنگا نہیں اب ...
ڈوبا شفق کی جھیل میں خورشید خاوری انگڑائی لے کے غرب سے لیلئ شب اٹھی مہکے ہوئے چمن کی ہوائیں اداس ہیں کیا کھو چکی ہیں آج فضائیں اداس ہیں کھڑکی میں آسمان کی حیراں ہے چاند بھی شاید مری طرح سے پریشاں ہے چاند بھی سوئی ہوئی بہار کے چہرے پہ یاس ہے غمگین دل کی طرح گلستاں اداس ہے آتی نہیں ...
یہ ساس ہے کہ شیر چھپا ہے نقاب میں اللہ کسی کو ساس نہ دیوے شباب میں حیراں ہوں دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں سوتی ہے وہ سنبھالتی ہوں سارے گھر کو میں بلو کو چپ کراؤں کہ ماروں قمر کو میں فرش زمین دھوؤں کہ مانجوں ککر کو میں رو رو کے یاد کرتی ہوں فادر پدر کو میں دکھتی ہے ساس ہی مجھے ...
یہ پل پڑتی ہیں ہم پر جب بھی ہم دفتر سے آتے ہیں ہلاکو خاں سے یا چنگیز خاں سے ان کے ناطے ہیں نہ اٹھ کر پنکھا جھلتی ہیں نہ دیتی ہیں ہمیں پانی پسینہ اپنا ہم تو ٹھنڈی آہوں سے سکھاتے ہیں انہیں لازم ہے جب ہم آئیں یہ جھک کر قدم چھو لیں مجازی ہم خدا ہیں پھر بھی ان پر رحم کھاتے ہیں اڑا لیتی ...
لہنگاؔ سنگھا کلمہ پڑھ لاالہ آگے پڑھ آگے آپ بتا دیجے میری جان بچا لیجے آگے مجھے اگر آتا تم سے میں کیوں پڑھواتا سوچ نہ اب بیکار رحیمؔ مار اس کو تلوار رحیم دور ہوں اس کے سب دکھڑے کر دے اس کے دو ٹکڑے
پھر وہی چھیڑیں پیار کی باتیں آپ نہیں باز آئیں گے دیکھیے ہم اٹھ کر چل دیں گے آپ نہیں گر جائیں گے قوس قزح چولھے میں جائے کالی گھٹا کو آگ لگے کیا ہم دیکھ نہیں سکتے ہیں آپ ہمیں دکھلائیں گے آنکھیں ہماری اچھی ہیں تو آپ کو ان سے کیا مطلب جیسی بھی ہیں آپ اب ان کے پیچھے ہی پڑ جائیں گے؟ بری ...
رحیم اللہ ہوا اچھا تو اس نے یہ دیکھا ہو چکی ہے ''پارٹیشن'' گئے کچھ بھاگ اور کچھ مر چکے ہیں نہ نیتا سنگھ باقی ہے نہ بھیشن سنے اس داستاں کے جب فسانے تو غصے نے بنایا اس کو مجنوں تڑپ اٹھا کہ لے کیسے وہ بدلہ پیے ان کافروں کا کس طرح خوں نہ کیوں کہلا سکا وہ مرد غازی نہ جب یہ مل سکا وہ خوب ...