شاعری

لیلائے کرپشن

آئی ہے مرے شہر میں اک شوخ حسینہ سرشار جوانی ہے کہ ساون کا مہینہ رعنائی کے تیور ہیں کہ طوفاں کا قرینہ اک محشر جذبات ہے ظالم کی جوانی مستانہ ادائیں ہیں کہ دریا کی روانی ہر منہ میں بھر آتا ہے جسے دیکھ کے پانی شوخی ہے کہ برسات کی گنگھور گھٹائیں یا بزم خرابات کی مخمور ہوائیں یا وادئ ...

مزید پڑھیے

اپیل

امیدوار تھا واہیؔ بھی ممبری کے لئے کہ شارٹ کٹ ہے یہی اک تونگری کے لئے مگر بہ فیض حریفاں اسے ٹکٹ نہ ملا پھنسا جو کہر سیاست میں شارٹ کٹ نہ ملا اپیل بورڈ میں پہونچا تو یوں شکایت کی حضور کی نہ گئی قدر میری خدمت کی یہ خود ستائی نہیں بلکہ یہ حقیقت حال کسی حریف سے کمتر نہیں مرے اعمال وہ ...

مزید پڑھیے

شاعر بسیار گو

شاعر بسیار گو سے ہے یہ میری التماس آپ یوں للہ سامع کو نہ کیجے بد حواس مختصر سی رسم ختنہ اور اس پر تیس شعر عقد کے دو بول کی تقریب اور چالیس شعر میں نے مانا شاعری کا آپ کو بحران ہے آپ کی فکر سخن پرچون کی دوکان ہے آپ ڈھیلی کر کے رکھ دیتے ہیں نس نس شعر کی اف یہ چو غزلہ اور اس پر ہر غزل دس ...

مزید پڑھیے

تہہ و بالا جہاں کو کر رکھا ہے اپنی اودھم سے

تہہ و بالا جہاں کو کر رکھا ہے اپنی اودھم سے سوا اس کے کہیں ہم کیا خدا ہی سمجھے ویلیم سے بہار جرمنی اب کوئی دم میں ہوتی ہے آخر نہیں یہ وار اس کے حق میں کم ونڈ آف آٹم سے جو مارے جانے سے بچ بھی گئے اس جنگ یورپ میں وہ بے شک بہرے ہو جائیں گے توپوں کی دھما دھم سے ہوئیں تعلیم پا کر بیبیاں ...

مزید پڑھیے

ہو رہے ہیں نت نئے قانون جاری ان دنوں

ہو رہے ہیں نت نئے قانون جاری ان دنوں چل رہی ہے دل پہ عالم کے کٹاری ان دنوں ٹیکس کی بھر مار سے ماتم ہے سارے ہند میں کچھ سنی جاتی نہیں فریاد و زاری ان دنوں حاکمان ہند کو اپنی ہی عشرت سے ہے کام کون کرتا ہے ہماری غم گساری ان دنوں مال و عزت جاہ و منصب اپنے سب جاتے رہے رہ گئی ہے صرف ان ...

مزید پڑھیے

اگرچہ ہتھیار سے ہیں ڈرتے مگر ارادے بڑے بڑے ہیں

اگرچہ ہتھیار سے ہیں ڈرتے مگر ارادے بڑے بڑے ہیں ملے ہمیں تخت ورنہ تختہ ہم اپنی اس بات پر اڑے ہیں اگرچہ ہتھیار دیکھتے ہی خراب ہوتی ہے اپنی دھوتی قلم سے میدان کاغذی میں ہمیشہ سرکار سے لڑے ہیں اگرچہ رہتے ہیں جھونپڑوں میں پر خواب محلوں کے دیکھتے ہیں سڑی گلی مچھلی کھاتے کھاتے دماغ ...

مزید پڑھیے

میاں کے دوست

آئے میاں کے دوست تو آتے چلے گئے چھوٹے سے ایک گھر میں سماتے چلے گئے وہ قہقہے لگے کہ چھتیں گھر کی اڑ گئیں بنیاد سارے گھر کی ہلاتے چلے گئے بکواس ان کی سن کے شیاطین رو پڑے رویا جو ایک سب کو رلاتے چلے گئے نوکر نے آج چائے کے دریا بہا دئیے دریا سمندروں میں سماتے چلے گئے الماریوں میں سہم ...

مزید پڑھیے

پھول اور کانٹا

جھٹپٹے کے وقت شیشم کے درختوں کے تلے مل رہی تھی جب ہوا مسرور شاخوں سے گلے جب زمین خلد منظر کیف سے معمور تھی شام کی دیوی محبت کے نشے میں چور تھی شہر کی ویراں سڑک پر مجھ کو اک لڑکی ملی نیلگوں ملبوس میں مورت چھپی تھی نور کی ساتھ اپنے دھول اڑائے جس طرح موج ہوا جس طرح سے پھول کے ساتھ ایک ...

مزید پڑھیے
صفحہ 14 سے 42