انجینئر کریں گے اگر ڈاکٹر کا کام
انجینئر کریں گے اگر ڈاکٹر کا کام پھر جان لیں مریض کی ہے زندگی تمام
انجینئر کریں گے اگر ڈاکٹر کا کام پھر جان لیں مریض کی ہے زندگی تمام
شیخ صاحب کی نصیحت بھری باتوں کے لئے کتنا رنگین جواب آپ کی انگڑائی ہے
دیوانگئ عشق پہ الزام کچھ بھی ہو دل دے دیا ہے آپ کو انجام کچھ بھی ہو دل کو یقیں ہے جذبۂ دیدار کی قسم وہ آئے گا ضرور سر بام کچھ بھی ہو آندھی کی زد پہ رکھ تو دیا ہے چراغ دل روشن رہے کہ گل ہو سر شام کچھ بھی ہو دل کو تو اعتماد ہے ساقی کی ذات پر اب زہر دے کہ وہ مئے گلفام کچھ بھی ہو ساغرؔ ...
وہ بھی کیا دن تھے کہ جب عشق لڑا لیتے تھے پیار کی ڈور کو چرخی پہ چڑھا لیتے تھے
کہوں تو کیا میں کہوں پیاری پیاری آنکھوں کو سبو کہوں کہ صراحی تمہاری آنکھوں کو کچھ ایسا چھایا ہے دل پر مرے غبار الم گلوں کے سائے بھی لگتے ہیں بھاری آنکھوں کو جھلک رہے ہیں وہ پلکوں پہ آنسوؤں کی طرح وہ غم جو تم نے دئیے ہیں ہماری آنکھوں کو جھکیں جو پلکیں تو رک جائیں دھڑکنیں دل ...
بدلا نہ بعد موت بھی کانٹوں بھرا نصیب آیا نہ جوش رحمت پروردگار میں ہر حور ان کی ہو گئی میں دیکھتا رہا پہلے سے شیخ دفن تھے میرے مزار میں
اک روز گھر جمے ہوئے مہمان سے کہا رسوا ہوا کہ آپ کی خدمت نہ کر سکا کہنے لگے کہ ایسا نہیں ہے جناب من بھابھی مجھے کھلاتی رہیں مرغ اور مٹن افراد خانہ آپ کے سب بے گزند ہیں بیٹے بھی تینوں آپ کے مجھ کو پسند ہیں میں نے کہا کہ پھر بھی مرے دل کو ہے یقیں خاطر نہ کوئی کر سکا میں آپ کے تئیں زحمت ...
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی بھر کرے عاشق مرا سیوا میری صبح سے شام تلک ہو کے مگن گاتا رہے میرا عاشق مری الفت میں بھجن گاتا رہے یوں میں چمکوں کہ زمانے میں اندھیرا ہو جائے کوئی لنگڑا کوئی اندھا کوئی لولا ہو جائے میرے جلووں کو عطا کر دے وہ قدرت یارب میری نفرت کو بھی سمجھے وہ ...
تصویر آج دیکھ کے عہد شباب کی اتنا ہنسا کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑے
دل جل رہے ہیں دوستو غم کے الاؤ میں بچے بھی مبتلا ہیں دماغی تناؤ میں پانی کی طرح بہتی ہے دولت چناؤ میں یکجہتی کا تو نام نہیں رکھ رکھاؤ میں اک آدمی کے واسطے پتلون، شرٹ، کوٹ اک آدمی کے واسطے ممکن نہیں لنگوٹ اک گھر میں اتنی روٹیاں کھائے نہیں بنیں اک گھر کا ہے یہ حال کہ ستو نہیں ...