مہنگائی کے زمانے میں بچوں کی ریل پیل
مہنگائی کے زمانے میں بچوں کی ریل پیل ایسا نہ ہو کمر تری مہنگائی توڑ دے اچھا ہے دل کے پاس رہے بیگم حیات ''لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے''
مہنگائی کے زمانے میں بچوں کی ریل پیل ایسا نہ ہو کمر تری مہنگائی توڑ دے اچھا ہے دل کے پاس رہے بیگم حیات ''لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے''
کیوں ہمارے خون کو پانی کئے دیتے ہیں آپ دوستوں کو دشمن جانی کئے دیتے ہیں آپ وہ زباں جو ہے فراقؔ و شادؔ و شنکرؔ کی زباں اس زباں کی کیوں مسلمانی کئے دیتے ہیں آپ
رفتہ رفتہ ہر پولس والے کو شاعر کر دیا محفل شعر و سخن میں بھیج کر سرکار نے ایک قیدی صبح کو پھانسی لگا کر مر گیا رات بھر غزلیں سنائیں اس کو تھانے دار نے
اب عشق نہیں مشکل بس اتنا سمجھ لیجے کب آگ کا دریا ہے کب تیر کے جانا ہے مایوس نہ ہوں عاشق مل جائے گی معشوقہ بس اتنی سی زحمت ہے موبائل اٹھانا ہے
بڑھ رہے ہیں ہر طرف عزم و عمل کے کارواں مرغ انڈے دے رہے ہیں اور اذانیں مرغیاں میں کہوں دور ترقی یا اسے دور خزاں آدمی بے مول ہے اور پارٹس باڈی کے گراں جو مکمل آدمی ہے بے سروسامان ہے گر یوں ہی ہر انگ کے پیسے بڑھیں گے بے شمار کوئی بھیجا چور ہوگا کوئی غنڈہ آنکھ مار شاہراہوں پر لگیں گے ...
ساغرؔ کہاں سے آ گئی دل میں دموں کی بات دم کے بغیر آدمی لگتا ہے واہیات ملتے ہیں اہل فن کو یہیں سے محرکات ہوتی تھی دم ثبوت میں اس کے محاورات استاد کہہ رہے تھے چھرا دل پہ چل گیا دم پر ہماری پاؤں وہ رکھ کر نکل گیا ہوتی تھی اک زمانے میں ہر آدمی کے دم بے امتیاز مذہب و ملت سبھی کے دم پھولے ...
بولا دوکان دار کہ سرکار دیکھیے مغلوں کی آن بان کے آثار دیکھیے اکبرؔ کی تیغ اور سپر ہے سلیمؔ کی ہر چیز دستیاب ہے عہد قدیم کی غالبؔ کا جام میرؔ کی ٹوپی کا بانکپن مومنؔ کا لوٹا حضرت سوداؔ کا پیرہن ایڑی گلاب کی ہے تو پنجا کنول کا ہے جوتا مری دوکان پہ حضرت محل کا ہے چٹکی میں میری دانت ...
بولا دکان دار کہ کیا چاہئے تمہیں جو بھی کہو گے میری دکاں پر وہ پاؤ گے میں نے کہا کہ کتے کے کھانے کا کیک ہے بولا یہیں پہ کھاؤ گے یا لے کے جاؤ گے
ہر تمنا کی کسک کو بس مٹا دیتا ہے وقت زخم جو دل پر لگے تھے سب وہ اچھے ہو گئے میں بھی اپنے گھر میں خوش ہوں وہ بھی اپنے گھر میں شاد میں بھی ابا بن گیا ان کے بھی بچے ہو گئے
بیٹھا ہوا تھا گھر میں کہ دستک کسی نے دی دیکھا لنگوٹ باندھے ہوئے موت ہے کھڑی کھولے ہوئے ہے منہ کو کسی غار کی طرح بکھرے ہوئے ہیں بال شب تار کی طرح چنگل میں ہیں پھنسے ہوئے یاران تیز رو جیبوں سے جھانکتے ہیں اسیران نو بہ نو کپڑے کے تھان سے بڑی ہاتھوں میں نان ہے دانتوں تلے دبی ہوئی ...