تو پیمبر سہی یہ معجزہ کافی تو نہیں
تو پیمبر سہی یہ معجزہ کافی تو نہیں شاعری زیست کے زخموں کی تلافی تو نہیں سایۂ گل میں ذرا دیر جو سستائے ہیں سایۂ دار سے یہ وعدہ خلافی تو نہیں اپنی دنیا سے ملی فرصت یک جست ہمیں آسماں کے لیے اک جست ہی کافی تو نہیں کسی چڑھتے ہوئے سورج کی پرستش نہ کرو دیکھ لو اس میں کوئی شعبدہ بافی ...