شاعری

تو پیمبر سہی یہ معجزہ کافی تو نہیں

تو پیمبر سہی یہ معجزہ کافی تو نہیں شاعری زیست کے زخموں کی تلافی تو نہیں سایۂ گل میں ذرا دیر جو سستائے ہیں سایۂ دار سے یہ وعدہ خلافی تو نہیں اپنی دنیا سے ملی فرصت یک جست ہمیں آسماں کے لیے اک جست ہی کافی تو نہیں کسی چڑھتے ہوئے سورج کی پرستش نہ کرو دیکھ لو اس میں کوئی شعبدہ بافی ...

مزید پڑھیے

خدا پرست ملے اور نہ بت پرست ملے

خدا پرست ملے اور نہ بت پرست ملے ملے جو لوگ وہ اپنے نشے میں مست ملے کہیں خود اپنی درستی کا دکھ نہیں دیکھا بہت جہاں کی درستی کے بندوبست ملے کہیں تو خاک نشیں کچھ بلند بھی ہوں گے ہزاروں اپنی بلندی میں کتنے پست ملے یہ سہل فتح تو پھیکی سی لگ رہی ہے مجھے کسی عظیم مہم میں کبھی شکست ...

مزید پڑھیے

ہمارے ہاتھ میں جب کوئی جام آیا ہے

ہمارے ہاتھ میں جب کوئی جام آیا ہے تو لب پہ کتنے ہی پیاسوں کا نام آیا ہے کہاں کا نور یہاں رات ہو گئی گہری مرا چراغ اندھیروں کے کام آیا ہے یہ کیا غضب ہے جو کل تک ستم رسیدہ تھے ستم گروں میں اب ان کا بھی نام آیا ہے تمام عمر کٹی اس کی جستجو کرتے بڑے دنوں میں یہ طرز کلام آیا ہے بڑھوں ...

مزید پڑھیے

لوگ تنہائی کا کس درجہ گلا کرتے ہیں

لوگ تنہائی کا کس درجہ گلا کرتے ہیں اور فن کار تو تنہا ہی رہا کرتے ہیں وہ تبسم ہے کہ غالبؔ کی طرح دار غزل دیر تک اس کی بلاغت کو پڑھا کرتے ہیں کوئی جادو کوئی جلوہ کوئی مستی کوئی موج ہم انہیں چند سہاروں پہ جیا کرتے ہیں دن پہ یاروں کو اندھیرے کا گماں ہوتا ہے ہم اندھیرے میں کرن ...

مزید پڑھیے

جبر حالات کا تو نام لیا ہے تم نے

جبر حالات کا تو نام لیا ہے تم نے اپنے سر بھی کبھی الزام لیا ہے تم نے مے کشی کے بھی کچھ آداب برتنا سیکھو ہاتھ میں اپنے اگر جام لیا ہے تم نے عمر گزری ہے اندھیرے کا ہی ماتم کرتے اپنے شعلے سے بھی کچھ کام لیا ہے تم نے ہم فقیروں سے ستائش کی تمنا کیسی شہریاروں سے جو انعام لیا ہے تم ...

مزید پڑھیے

آج سے پہلے ترے مستوں کی یہ خواری نہ تھی

آج سے پہلے ترے مستوں کی یہ خواری نہ تھی مے بڑی افراط سے تھی پھر بھی سرشاری نہ تھی ایک ہم قدروں کی پامالی سے رہتے تھے ملول شکر ہے یاروں کو ایسی کوئی بیماری نہ تھی ذہن کی پرواز ہو یا شوق کی رامش گری کوئی آزادی نہ تھی جس میں گرفتاری نہ تھی جوش تھا ہنگامہ تھا محفل میں تیری کیا نہ ...

مزید پڑھیے

وہ جئیں کیا جنہیں جینے کا ہنر بھی نہ ملا

وہ جئیں کیا جنہیں جینے کا ہنر بھی نہ ملا دشت میں خاک اڑاتے رہے گھر بھی نہ ملا خس و خاشاک سے نسبت تھی تو ہونا تھا یہی ڈھونڈنے نکلے تھے شعلے کو شرر بھی نہ ملا نہ پرانوں سے نبھی اور نہ نئے ساتھ چلے دل ادھر بھی نہ ملا اور ادھر بھی نہ ملا دھوپ سی دھوپ میں اک عمر کٹی ہے اپنی دشت ایسا کہ ...

مزید پڑھیے

خشک کھیتی ہے مگر اس کو ہری کہتے ہیں

خشک کھیتی ہے مگر اس کو ہری کہتے ہیں کم نگاہی کو بھی وہ دیدہ وری کہتے ہیں فکر روشن کو وہ شوریدہ سری کہتے ہیں یعنی سورج کو چراغ سحری کہتے ہیں جو ترے در سے اٹھا پھر وہ کہیں کا نہ رہا اس کی قسمت میں رہی در بدری کہتے ہیں کتنی بے رحم ہے فطرت انہیں معلوم نہیں جو اسے کارگہ شیشہ گری کہتے ...

مزید پڑھیے

کچھ لوگ تغیر سے ابھی کانپ رہے ہیں

کچھ لوگ تغیر سے ابھی کانپ رہے ہیں ہم ساتھ چلے تو ہیں مگر ہانپ رہے ہیں نعروں سے سیاست کی حقیقت نہیں چھپتی عریاں ہے بدن لاکھ اسے ڈھانپ رہے ہیں کیا بات ہے شہروں میں سمٹ آئے ہیں سارے جنگل میں تو گنتی کے ہی کچھ سانپ رہے ہیں مکڑی کہیں مکھی کو گرفتار نہ کر لے وہ شوخ نگاہوں سے مجھے ...

مزید پڑھیے

داستان شوق کتنی بار دہرائی گئی

داستان شوق کتنی بار دہرائی گئی سننے والوں میں توجہ کی کمی پائی گئی فکر ہے سہمی ہوئی جذبہ ہے مرجھایا ہوا موج کی شورش گئی دریا کی گہرائی گئی حسن بھی ہے مصلحت بیں عشق بھی دنیا شناس آپ کی شہرت گئی یاروں کی رسوائی گئی ہم تو کہتے تھے زمانہ ہی نہیں جوہر شناس غور سے دیکھا تو اپنے میں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4638 سے 4657