شاعری

ہر شے آنی جانی ہے

ہر شے آنی جانی ہے جیون بہتا پانی ہے ہجر کی راتیں وصل کے دن اک دلچسپ کہانی ہے حسن ہے فانی عشق مرا ان مٹ ہے لا فانی ہے جو نا اہل ہے ان ہاتھوں میں پھولوں کی نگرانی ہے رہتے ایک گلی میں ہیں دونوں کو حیرانی ہے سب چلتے ہیں ڈگر ڈگر ایک ڈگر انجانی ہے اپنا ہے پھر اپنا لہو پانی آخر پانی ...

مزید پڑھیے

اس کے چہرے پہ تبسم کی ضیا آئے گی

اس کے چہرے پہ تبسم کی ضیا آئے گی وہ مجھے یاد کرے گا تو حیا آئے گی اوڑھ کر جسم پہ یادوں کی ردا آئے گی جب بھی ماضی کے جھروکوں سے ہوا آئے گی کون مظلوم کی فریاد سنے گا نا حق لوٹ کر دشت میں خود اپنی صدا آئے گی کس قدر بکھرا ہوا ہوں میں بچھڑ کے تجھ سے یاد اب کس کی مجھے تیرے سوا آئے گی بند ...

مزید پڑھیے

لہو لہو آرزو بدن کا لحاف ہوگا

لہو لہو آرزو بدن کا لحاف ہوگا وہ کتنا بزدل ہے آج یہ انکشاف ہوگا مری ہر اک بات تھی حقائق کی روشنی میں یہ جانتا تھا زمانہ میرے خلاف ہوگا حقیقتوں کے چراغ ہر سو جلا کے رکھنا مجھے یقیں ہے کہ جھوٹ کا انعطاف ہوگا یہ غم نہیں ہے شناخت اپنی میں کھو چکا ہوں تمہاری ہستی سے کب مجھے انحراف ...

مزید پڑھیے

کس ہتھیلی پہ پاپوش سینچے گئے کس کہانی کو بے نام رکھا گیا

کس ہتھیلی پہ پاپوش سینچے گئے کس کہانی کو بے نام رکھا گیا زانوئے دل پہ کل شب بڑی بھیڑ تھی جس کے برتے پہ انجام رکھا گیا ہم شروع محبت سے نادار تھے اپنی آنکھوں سے ہونٹوں سے بیزار تھے ہم سے کیا پوچھتے ہو لہو کی کھنک جس کے ریشوں میں ابہام رکھا گیا انتہاؤں میں تجھ سے الگ ہو گئے ...

مزید پڑھیے

مٹی کی صراحی ہے

مٹی کی صراحی ہے پانی کی گواہی ہے عشاق نہیں ہم لوگ پر رنگ تو کاہی ہے ہر غنچۂ لب درباں ہر شاخ سپاہی ہے سبزے پہ کھنچا نقشہ اور سرخ سیاہی ہے اک سانولی پت جھڑ کے پشتے پہ تباہی ہے ادھڑی ہوئی قبروں پر کتبوں کی مناہی ہے اے کانچ کی سی پنڈلی یہ شہر سبا ہی ہے

مزید پڑھیے

اب تم کو ہی ساون کا سندیسہ نہیں بننا

اب تم کو ہی ساون کا سندیسہ نہیں بننا مجھ کو بھی کسی اور کا رستہ نہیں بننا کہتی ہے کہ آنکھوں سے سمندر کو نکالو ہنستی ہے کہ تم سے تو کنارہ نہیں بننا محتاط ہے اتنی کہ کبھی خط نہیں لکھتی کہتی ہے مجھے اوروں کے جیسا نہیں بننا تصویر بناؤں تو بگڑ جاتی ہے مجھ سے ایسا نہیں بننا مجھے ویسا ...

مزید پڑھیے

سبز حکایت سرخ کہانی

سبز حکایت سرخ کہانی تیرے آنچل کی مہمانی سہج سہج اس حسن کا چلنا اس پہ اندھی شب طوفانی اک مصرع وہ جسم اکہرا دوجا میرے لب دہقانی جلد سنہری ہونٹ پیازی اس پہ خواہش کی ارزانی بالوں کا گھنگھور اندھیرا ابھری اینٹوں کی حیرانی پنڈلی سے ٹکراتی پنڈلی اترن کی فتنہ سامانی اک لڑکی کے ...

مزید پڑھیے

سسکیوں ہچکیوں آہوں کی فراوانی میں

سسکیوں ہچکیوں آہوں کی فراوانی میں الجھنیں کتنی ہیں اس عشق کی آسانی میں یہ ترے بالوں کا تالاب کی تہ کو چھونا حالت خواب میں یا عالم عریانی میں بے حجابانہ کسی لہر کا تجھ تک آنہ پھر ترے جسم کا بہہ جانا گھنے پانی میں کہکشاؤں کا غزالوں کا غزل زادوں کا دور و نزدیک سے آنا تری مہمانی ...

مزید پڑھیے

لہو رگوں میں سنبھالا نہیں گیا مجھ سے

لہو رگوں میں سنبھالا نہیں گیا مجھ سے کسی دشا میں اچھالا نہیں گیا مجھ سے سڈول بانہوں میں بھرتا میں لوچ ساون کا وہ سنگ موم میں ڈھالا نہیں گیا مجھ سے میں خواب پڑھتا تھا ہمسائیگی کی ابجد سے مگر وہ حسن خیالا نہیں گیا مجھ سے وہی ہے میرے لہو میں چمک الوہی سی سمے اجالنے والا نہیں گیا ...

مزید پڑھیے

ادا ہے خواب ہے تسکین ہے تماشا ہے

ادا ہے خواب ہے تسکین ہے تماشا ہے ہماری آنکھ میں اک شخص بے تحاشا ہے ذرا سی چائے گری اور داغ داغ ورق یہ زندگی ہے کہ اخبار کا تراشا ہے تمہارا بولتا چہرہ پلک سے چھو چھو کر یہ رات آئینہ کی ہے یہ دن تراشا ہے ترے وجود سے بارہ دری دمک اٹھی کہ پھول پلو سرکنے سے ارتعاشا ہے میں بے زباں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4635 سے 4657