شاعری

گھروندے خوابوں کے سورج کے ساتھ رکھ لیتے

گھروندے خوابوں کے سورج کے ساتھ رکھ لیتے پروں میں دھوپ کے اک کالی رات رکھ لیتے ہمیں خبر تھی زباں کھولتے ہی کیا ہوگا کہاں کہاں مگر آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لیتے تمام جنگوں کا انجام میرے نام ہوا تم اپنے حصے میں کوئی تو مات رکھ لیتے کہا تھا تم سے کہ یہ راستہ بھی ٹھیک نہیں کبھی تو قافلے ...

مزید پڑھیے

جس کی نہ کوئی رات ہو ایسی سحر ملے

جس کی نہ کوئی رات ہو ایسی سحر ملے سارے تعینات سے اک دن مفر ملے افواہ کس نے ایسی اڑائی کہ شہر میں ہر شخص بچ رہا ہے نہ اس سے نظر ملے دشواریاں کچھ اور زیادہ ہی بڑھ گئیں گھر سے چلے تو راہ میں اتنے شجر ملے طے کرنا رہ گئی ہیں ابھی کتنی منزلیں جو آگے جا چکے ہیں کچھ ان کی خبر ملے ممکن ہے ...

مزید پڑھیے

تم نے لکھا ہے لکھو کیسا ہوں میں

تم نے لکھا ہے لکھو کیسا ہوں میں دوستوں کی بھیڑ ہے تنہا ہوں میں یاسمین و نسترن میرا پتہ خوشبوؤں کے جسم پر لکھا ہوں میں پہلے ہی کیا کم تماشے تھے یہاں پھر نئے منظر اٹھا لایا ہوں میں پھر وہی موسم پرانے ہو گئے دن ڈھلے سرگوشیاں سنتا ہوں میں کون اترتی چڑھتی سانسوں کا امیں سایۂ دیوار ...

مزید پڑھیے

کوئی غل ہوا تھا نہ شور خزاں

کوئی غل ہوا تھا نہ شور خزاں اجڑنے لگیں خود بہ خود بستیاں جسے دیکھنے گھر سے نکلے تھے ہم دھواں ہو گیا شام کا وہ سماں سبھی کچھ تو دریا بہا لے گیا تجھے اور کیا چاہئے آسماں بس اک دھند ہے اور کچھ بھی نہیں روانہ ہوئی تھیں جدھر کشتیاں ابھی طے شدہ کوئی جادہ نہیں ابھی تک بھٹکتے ہیں سب ...

مزید پڑھیے

آنکھوں کے بند باب لیے بھاگتے رہے

آنکھوں کے بند باب لیے بھاگتے رہے بڑھتے ہوئے عتاب لیے بھاگتے رہے سونے سے جاگنے کا تعلق نہ تھا کوئی سڑکوں پہ اپنے خواب لیے بھاگتے رہے فرصت نہیں تھی اتنی کہ پیروں سے باندھتے ہم ہاتھ میں رکاب لیے بھاگتے رہے تیزی سے بیتتے ہوئے لمحوں کے ساتھ ساتھ جینے کا اک عذاب لیے بھاگتے رہے کچھ ...

مزید پڑھیے

تعبیر اس کی کیا ہے دھواں دیکھتا ہوں میں

تعبیر اس کی کیا ہے دھواں دیکھتا ہوں میں اک دریا کچھ دنوں سے رواں دیکھتا ہوں میں اب کے بھی رائیگاں گئیں صحرا نوردیاں پھر تیری رہ گزر کے نشاں دیکھتا ہوں میں یہ سچ ہے ایک جست میں ہے فاصلہ تمام لیکن ادھر بھی شہر گماں دیکھتا ہوں میں ہے روشنی ہی روشنی منظر نہیں کوئی سورج لٹک رہے ہیں ...

مزید پڑھیے

آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نیا نہ تھا

آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نیا نہ تھا بس وہ ذرا سا فاصلہ باقی رہا نہ تھا اب اس سفر کا سلسلہ شاید ہی ختم ہو سب اپنی اپنی راہ لیں ہم نے کہا نہ تھا دروازے آج بند سمجھئے سلوک کے یہ چلنے والا دور تلک سلسلہ نہ تھا اونچی اڑان کے لیے پر تولتے تھے ہم اونچائیوں پہ سانس گھٹے گی پتا نہ ...

مزید پڑھیے

رونے کو بہت روئے بہت آہ و فغاں کی

رونے کو بہت روئے بہت آہ و فغاں کی کٹتی نہیں زنجیر مگر سود و زیاں کی آئیں جو یہاں اہل خرد سوچ کے آئیں اس شہر سے ملتی ہیں حدیں شہر گماں کی کرتے ہیں طواف آج وہ خود اپنے گھروں کا جو سیر کو نکلے تھے کبھی سارے جہاں کی اس دشت کے انجام پہ پہلے سے نظر تھی تاثیر سمجھتے تھے ہم آواز سگاں ...

مزید پڑھیے

بھینی خوشبو سلگتی سانسوں میں

بھینی خوشبو سلگتی سانسوں میں بجلیاں بھر گئی ہیں ہاتھوں میں صرف تیرا بدن چمکتا ہے کالی لمبی اداس راتوں میں کیا کیا چھینے گا اے امیر شہر اتنے منظر ہیں میری آنکھوں میں آنکھ کھلتے ہی بستیاں تاراج کوئی لذت نہیں ہے خوابوں میں بند ہیں آج سارے دروازے آگ روشن ہے سائبانوں میں وہ سزا ...

مزید پڑھیے

پناہیں ڈھونڈ کے کتنی ہی روز لاتا ہے

پناہیں ڈھونڈ کے کتنی ہی روز لاتا ہے مگر وہ لوٹ کے زلفوں کی سمت آتا ہے سلگتی ریت ہے اور ٹھنڈے پانیوں کا سفر وہ کون ہے جو ہمیں راستہ دکھاتا ہے ہے انتظار مجھے جنگ ختم ہونے کا لہو کی قید سے باہر کوئی بلاتا ہے جو مشکلوں کے لیے حل تلاش لایا تھا کھلونے بانٹ کے بچوں میں مسکراتا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4632 سے 4657