شاعری

دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اٹھ کر چپ چاپ ہم تو یہ دھیان میں ...

مزید پڑھیے

کنج غزل نہ قیس کا ویرانہ چاہئے

کنج غزل نہ قیس کا ویرانہ چاہئے جو غم مجھے ہے اس کو عزا خانہ چاہئے ہے جس کا انتظار پلک سے فلک تلک اب آنا چاہئے اسے آ جانا چاہئے یارب مرے لباس سے ہرگز گماں نہ ہو لیکن مجھے مزاج فقیرانہ چاہئے ملتی نہیں ہے ناؤ تو درویش کی طرح خود میں اتر کے پار اتر جانا چاہئے اے دوست! مجھ سے عشق کی ...

مزید پڑھیے

یہ اور بات کہ رنگ بہار کم ہوگا

یہ اور بات کہ رنگ بہار کم ہوگا نئی رتوں میں درختوں کا بار کم ہوگا تعلقات میں آئی ہے بس یہ تبدیلی ملیں گے اب بھی مگر انتظار کم ہوگا میں سوچتا رہا کل رات بیٹھ کر تنہا کہ اس ہجوم میں میرا شمار کم ہوگا پلٹ تو آئے گا شاید کبھی یہی موسم ترے بغیر مگر خوش گوار کم ہوگا بہت طویل ہے آنسؔ ...

مزید پڑھیے

وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی

وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی عجیب شخص ہے اپنا بھی ہے پرایا بھی یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی میں چاہتا ہوں ٹھہر جائے چشم دریا میں لرزتا عکس تمہارا بھی میرا سایا بھی بہت مہین تھا پردہ لرزتی آنکھوں کا مجھے دکھایا بھی تو نے مجھے ...

مزید پڑھیے

کتنے ہی پیڑ خوف خزاں سے اجڑ گئے

کتنے ہی پیڑ خوف خزاں سے اجڑ گئے کچھ برگ سبز وقت سے پہلے ہی جھڑ گئے کچھ آندھیاں بھی اپنی معاون سفر میں تھیں تھک کر پڑاؤ ڈالا تو خیمے اکھڑ گئے اب کے مری شکست میں ان کا بھی ہاتھ ہے وہ تیر جو کمان کے پنجے میں گڑ گئے سلجھی تھیں گتھیاں مری دانست میں مگر حاصل یہ ہے کہ زخموں کے ٹانکے ...

مزید پڑھیے

ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور

ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور بڑھ جائے گی شاید مری تنہائی ذرا اور کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور پھر ہاتھ پہ زخموں کے نشاں گن نہ سکو گے یہ الجھی ہوئی ڈور جو سلجھائی ذرا اور تردید تو کر سکتا تھا پھیلے گی مگر بات اس طور بھی ہوگی تری ...

مزید پڑھیے

عجب تلاش مسلسل کا اختتام ہوا

عجب تلاش مسلسل کا اختتام ہوا حصول رزق ہوا بھی تو زیر دام ہوا تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقت شام ہوا ہر ایک شہر کا معیار مختلف دیکھا کہیں پہ سر کہیں پگڑی کا احترام ہوا ذرا سی عمر عداوت کی لمبی فہرستیں عجیب قرض وراثت میں میرے نام ہوا نہ تھی زمین میں ...

مزید پڑھیے

یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور

یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور دکھ مجھ کو ہے اور نیر بہائے گا کوئی اور کیا پھر یوں ہی دی جائے گی اجرت پہ گواہی کیا تیری سزا اب کے بھی پائے گا کوئی اور انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور تب ہوگی خبر کتنی ہے رفتار تغیر جب شام ڈھلے لوٹ کے ...

مزید پڑھیے

پتھر ہیں سبھی لوگ کریں بات تو کس سے (ردیف .. ن)

پتھر ہیں سبھی لوگ کریں بات تو کس سے اس شہر خموشاں میں صدا دیں تو کسے دیں ہے کون کہ جو خود کو ہی جلتا ہوا دیکھے سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیا دیں تو کسے دیں سب لوگ سوالی ہیں سبھی جسم برہنہ اور پاس ہے بس ایک ردا دیں تو کسے دیں جب ہاتھ ہی کٹ جائیں تو تھامے گا بھلا کون یہ سوچ رہے ہیں کہ عصا ...

مزید پڑھیے

باہر بھی اب اندر جیسا سناٹا ہے

باہر بھی اب اندر جیسا سناٹا ہے دریا کے اس پار بھی گہرا سناٹا ہے شور تھمے تو شاید صدیاں بیت چکی ہیں اب تک لیکن سہما سہما سناٹا ہے کس سے بولوں یہ تو اک صحرا ہے جہاں پر میں ہوں یا پھر گونگا بہرا سناٹا ہے جیسے اک طوفان سے پہلے کی خاموشی آج مری بستی میں ایسا سناٹا ہے نئی سحر کی چاپ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4629 سے 4657