شاعری

ہم نے چپ رہ کے جو ایک ساتھ بتایا ہوا ہے

ہم نے چپ رہ کے جو ایک ساتھ بتایا ہوا ہے وہ زمانا مری آواز میں آیا ہوا ہے غیر مانوس سی خوشبو سے لگا ہے مجھ کو تو نے یہ ہاتھ کہیں اور ملایا ہوا ہے میں اسے دیکھ کے لوٹا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں شہر کا شہر مجھے دیکھنے آیا ہوا ہے

مزید پڑھیے

دہن کھولیں گی اپنی سیپیاں آہستہ آہستہ

دہن کھولیں گی اپنی سیپیاں آہستہ آہستہ گزر دریا سے اے ابر رواں آہستہ آہستہ لہو تو عشق کے آغاز ہی میں جلنے لگتا ہے مگر ہونٹوں تک آتا ہے دھواں آہستہ آہستہ پلٹنا بھی اگر چاہیں پلٹ کر جا نہیں سکتے کہاں سے چل کے ہم آئے کہاں آہستہ آہستہ کہیں لالی بھری تھالی نہ گر جائے سمندر میں چلا ...

مزید پڑھیے

ہنسنے نہیں دیتا کبھی رونے نہیں دیتا

ہنسنے نہیں دیتا کبھی رونے نہیں دیتا یہ دل تو کوئی کام بھی ہونے نہیں دیتا تم مانگ رہے ہو مرے دل سے مری خواہش بچہ تو کبھی اپنے کھلونے نہیں دیتا میں آپ اٹھاتا ہوں شب و روز کی ذلت یہ بوجھ کسی اور کو ڈھونے نہیں دیتا وہ کون ہے اس سے تو میں واقف بھی نہیں ہوں جو مجھ کو کسی اور کا ہونے ...

مزید پڑھیے

مکاں بھر ہم کو ویرانی بہت ہے

مکاں بھر ہم کو ویرانی بہت ہے مگر یہ دل کہ سیلانی بہت ہے ہمارے پاؤں الٹے ہیں سو ہم کو پلٹ جانے میں آسانی بہت ہے ستارے چور آنکھوں سے نہ دیکھیں زمیں پر میری نگرانی بہت ہے ابھی سوکھی نہیں مٹی کی آنکھیں ابھی دریاؤں میں پانی بہت ہے عجب سی شرط ہے یہ زندگی بھی جو منوائی ہے کم مانی بہت ...

مزید پڑھیے

ہوائے تیز ترا ایک کام آخری ہے

ہوائے تیز ترا ایک کام آخری ہے کہ نخل خشک پہ ماہ تمام آخری ہے میں جس سکون سے بیٹھا ہوں اس کنارے پر سکوں سے لگتا ہے میرا قیام آخری ہے پھر اس کے بعد یہ بازار دل نہیں لگنا خرید لیجئے صاحب غلام آخری ہے گزر چلا ہوں کسی کو یقیں دلاتا ہوا کہ لوح دل پہ رقم ہے جو نام آخری ہے تبھی تو پیڑ کی ...

مزید پڑھیے

بچپن کا دور عہد جوانی میں کھو گیا

بچپن کا دور عہد جوانی میں کھو گیا یہ امر واقعہ بھی کہانی میں کھو گیا لہروں میں کوئی نقشہ کہاں پائیدار ہے سورج کے بعد چاند بھی پانی میں کھو گیا آنکھوں تک آ سکی نہ کبھی آنسوؤں کی لہر یہ قافلہ بھی نقل مکانی میں کھو گیا اب بستیاں ہیں کس کے تعاقب میں رات دن دریا تو آپ اپنی روانی میں ...

مزید پڑھیے

کوئی ملتا نہیں یہ بوجھ اٹھانے کے لیے

کوئی ملتا نہیں یہ بوجھ اٹھانے کے لیے شام بے چین ہے سورج کو گرانے کے لیے اپنے ہم زاد درختوں میں کھڑا سوچتا ہوں میں تو آیا تھا انہیں آگ لگانے کے لیے میں نے تو جسم کی دیوار ہی ڈھائی ہے فقط قبر تک کھودتے ہیں لوگ خزانے کے لیے دو پلک بیچ کبھی راہ نہ پائی ورنہ میں نے کوشش تو بہت کی نظر ...

مزید پڑھیے

شاید کسی بلا کا تھا سایہ درخت پر

شاید کسی بلا کا تھا سایہ درخت پر چڑیوں نے رات شور مچایا درخت پر موسم تمہارے ساتھ کا جانے کدھر گیا تم آئے اور بور نہ آیا درخت پر دیکھا نہ جائے دھوپ میں جلتا ہوا کوئی میرا جو بس چلے کروں سایہ درخت پر سب چھوڑے جا رہے تھے سفر کی نشانیاں میں نے بھی ایک نقش بنایا درخت پر اب کے بہار ...

مزید پڑھیے

ایک قدم تیغ پہ اور ایک شرر پر رکھا

ایک قدم تیغ پہ اور ایک شرر پر رکھا میری وحشت نے مجھے رقص دگر پر رکھا میرے مالک نے تجھے آئنہ داری دے کر نگراں تجھ کو مرے حسن نظر پر رکھا لا تعلق نظر آتا تھا بظاہر لیکن شہر کو اس نے مری خیر خبر پر رکھا زندگی تو نے قدم موڑ دیئے اور طرف اور اندر سے مجھے اور سفر پر رکھا اہل وحشت کو ...

مزید پڑھیے

وہ کون ہے جو پس چشم تر نہیں آتا

وہ کون ہے جو پس چشم تر نہیں آتا سمجھ تو آتا ہے لیکن نظر نہیں آتا اگر یہ تم ہو تو ثابت کرو کہ یہ تم ہو گیا ہوا تو کوئی لوٹ کر نہیں آتا یہ دل بھی کیسا شجر ہے کہ جس کی شاخوں پر پرندے آتے ہیں لیکن ثمر نہیں آتا یہ جمع خرچ زبانی ہے اس کے بارے میں کوئی بھی شخص اسے دیکھ کر نہیں آتا ہماری ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4622 سے 4657