غزل: اسی کو راز بتایا جو رازدار نہ تھا
جنون اسے بھی رہا آندھیوں پہ قبضہ کا , جسے خود اپنی ہی سانسوں پہ اعتبار نہ تھا
جنون اسے بھی رہا آندھیوں پہ قبضہ کا , جسے خود اپنی ہی سانسوں پہ اعتبار نہ تھا
جذبہ غیرت کا خمیدہ نہیں ہونے دیتا بوجھ اتنا ہے کہ سیدھا نہیں ہونے دیتا شرط اتنی ہے گنہ گار پشیماں ہو جائے وہ خطا پوش ہے رسوا نہیں ہونے دیتا کھول دیتا ہے پھر امید کی کھڑکی کوئی مجھ کو محروم تمنا نہیں ہونے دیتا بزدلی کچھ بھی انوکھا نہیں کرنے دیتی خوف ناکامی کرشمہ نہیں ہونے ...
تشنہ لبی بڑھائے گی موج سراب دیکھنا چھوڑ دے جاگتی ہوئی آنکھوں سے خواب دیکھنا صحرا بھی ہے سلگ رہا چشم بھی ہیں ابل رہے خشک لبوں کو دیکھنا چشم پر آب دیکھنا اپنے کرم مری وفا دونوں کو جوڑ تو ذرا میری طرف نکلتا ہے کتنا حساب دیکھنا یوں ہی اگر زمین پر ظلم زیادتی رہی اترے گا آسماں سے ...
دل ہو آوارہ مگر عقل ٹھکانے سے رہے ہم یہ آداب محبت کے نبھانے سے رہے ان دنوں ناز اٹھانے کا نہیں ہے یارا ہم تو خود سے ہیں خفا ان کو منانے سے رہے ہجر کی دھوپ نے آنکھوں میں نمی تک نہ رکھی اب تری یاد میں ہم اشک بہانے سے رہے ہے زمانہ کو محبت کا تقاضا ہم سے ہم جو محروم محبت ہی زمانہ سے ...
تیرا اپنا ہی قبیلہ تو ہے طاقت تیری اور اپنے ہی قبیلے سے بغاوت تیری ایک بس جرم محبت ہی ہوا ہے ہم سے اب سزا چاہے ہمیں جو دے عدالت تیری ڈھا کے ارمانوں کا گھر کون یہاں پوچھتا ہے کتنی اس گھر میں بتا آئی تھی لاگت تیری پیار کی دھوپ کا موسم تری آنکھو سے گیا بڑھ گئی اب مرے خورشید تمازت ...
کبھی کبھی تری چاہت پہ یہ گماں گزرا کہ جیسے سر سے ستاروں کا سائباں گزرا چراغ ایسے جلا کر بجھا گیا کوئی تمام دید کا عالم دھواں دھواں گزرا جنون شوق میں سجدوں کی آبرو بھی گئی مجھے خبر نہ ہوئی کب وہ آستاں گزرا وہ میرا وہم نظر تھا کہ تیرا عکس جمیل وہ کون تھا کہ جو منظر کے درمیاں ...
یوں تو اخلاص میں اس کے کوئی دھوکا بھی نہیں کب بدل جائے مگر اس کا بھروسا بھی نہیں کاٹ دی وقت نے زنجیر تعلق کی کڑی اب مسافر کو کوئی روکنے والا بھی نہیں پھر نہ یادوں کے کہیں بند دریچے کھل جائیں مدتوں سے تری تصویر کو دیکھا بھی نہیں جل گیا دھوپ میں یادوں کا خنک سایہ بھی بے نوا دشت ...
کیا دیکھتا ہے حال کے منظر ادھر بھی دیکھ ماضی کے نقش یاد کی دیوار پر بھی دیکھ دیکھے ہیں میرے عیب تو میرا ہنر بھی دیکھ سودا ہے جس میں اپنا انا کا وہ سر بھی دیکھ لے کام مجھ سے سخت اڑانوں کا تو مگر پہلے مری نگاہ مرے بال و پر بھی دیکھ چہرے کے رنگ و نور کو میرا ہنر سمجھ مجھ کو مری نظر ...
ہجر میں تیرے تصور کا سہارا ہے بہت رات اندھیری ہی سہی پھر بھی اجالا ہے بہت مانگ کر میری انا کو نہیں دریا بھی قبول اور بے مانگ میسر ہو تو قطرہ ہے بہت یہ تو سچ ہے کہ شب غم کو سنوارا تم نے چشم تر نے بھی مرا ساتھ نبھایا ہے بہت بات کرنا تو کجا اس سے تعارف بھی نہیں عمر بھر جس کو ہر اک حال ...
جو تری محفل سے ذوق خام لے کر آئے ہیں اپنے سر وہ خود ہی اک الزام لے کر آئے ہیں زندگی کے نرم کاندھوں پر لیے پھرتے ہیں ہم غم کا جو بار گراں انعام لے کر آئے ہیں وقت کے ناداں پرندے زعم دانائی کے گرد خوبصورت خواہشوں کے دام لے کر آئے ہیں ایک منظر پر نظر ٹھہرے تو ٹھہرے کس طرح ہم مزاج ...