پلاٹ کا قصہ
افسانے پر نظریاتی بحث کی ابتدا ارسطو سے ہوتی ہے۔ چونکہ المیہ، طربیہ اور افسانہ، تینوں میں واقعات کا بیان ہوتا ہے، اس لئے المیہ اور طربیہ میں واقعات کے بارے میں ارسطو نے جو کچھ کہا اس کو افسانے کے لئے بھی صحیح سمجھ لیا گیا۔ چنانچہ ارسطو کے زیرِ اثر یہ نظریہ قائم اور مقبول ہوا کہ افسانے میں پلاٹ مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ پلاٹ کے بارے میں ارسطو کے نکات حسب ذیل ہیں،
(۱) عمل کی نمائندگی المیے کا پلاٹ ہے، پلاٹ سے مراد ہے واقعات کی منطقی ترتیب۔
(۲) المیے کا مقصد و اقعات اور پلاٹ کو پیش کرنا ہے۔ پلاٹ کے بغیر المیہ قائم نہیں ہو سکتا، مگر کردار کے بغیر قائم ہو سکتا ہے۔
(۳) پلاٹ میں آغاز، وسط اور انجام ہوتا ہے۔ خوبی سے تعمیر کیا ہوا پلاٹ وہ ہے جس میں یہ تینوں صفات ہوں۔
(۴) واقعات کی ترتیب سے مراد یہ ہے کہ انجام کے بعد کچھ نہ ہو اور انجام کسی وقوعے کے عقب میں فطری طور پر ظہور میں آئے، چاہے ازروئے قاعدہ، چاہے ضرورتاً۔
(۵) پلاٹ کے مختلف حصوں میں اس طرح کا تعمیری ربط ہونا چاہیے کہ اگر کسی ایک کی جگہ بدل دی جائے یا اسے حذف کر دیا جائے تو سارے کا سرا بد نظم یا درہم برہم ہو جائے۔
(۶) پلاٹ میں وہی چیزیں بیان ہونا چاہیے جو واقع ہو سکتی ہیں، یعنی جن کا واقعہ ہونا لازمی یا اجتماعی طور پر ممکن ہو۔
مندرجہ بالا نکات کی روشنی میں یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ جدید افسانے کے پلاٹ کے بارے میں تقریباً سارے مفروضے ارسطو کے خیالات پر تعمیر کئے گئے ہیں۔ ان خیالات کا اثر اتنا زبردست ہے کہ افسانے اور کہانی، یعنی Fiction کے جدید ترین نظریہ ساز بھی ان سے برآمد کردہ بعض نتائج کو فطری اور جبلی سمجھتے ہیں۔ مثلاً ارسطو کے خیالات کا ایک اہم نتیجہ یہ ہے کہ چونکہ افسانے کے لئے پلاٹ ضرور ی ہے اور پلاٹ سے مراد ہے واقعات کی ایسی ترتیب جن میں آپس میں آغاز، وسط اور انجام کا رشتہ ہو اور اس ترتیب میں ایک تعمیری ربط ہو، لہٰذا افسانہ (یعنی قصہ) قائم ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس میں بیان کردہ واقعات میں علت اور معلول cause and effectکا رشتہ ہو۔
چنانچہ جیرلڈ پرنس (Gerald Prince) اپنی کتاب Grammar of Stories میں کہتا ہے کہ واقعات کی وہ ترتیب جس میں علت اور معلول کا رشتہ نہ ہو، کہانی نہیں معلوم ہوتی، اور وہ ترتیب جس میں یہ رشتہ ہو، ہمیں فطری اور جبلی طور پر (intuitively) کہانی معلوم ہوتی ہے۔ افسانہ (یعنی قصہ، جو افسانے کی اصل ہے) اور کہانی، یعنی Fiction کے فرق پر بحث کو فی الحال ملتوی رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ کہانی اور افسانہ دونوں میں پلاٹ کی اہمیت کو یکساں تسلیم کیا گیا ہے اور افسانے میں قصہ پن (fictionality) کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے، اس لئے پلاٹ کی بحث کی حد تک قصے اور Fiction یعنی کہانی کے روایتی تصور میں کوئی بنیادی فرق نہیں۔
واقعات کی ترتیب میں تعمیری ربط کا ہونا قصے اور افسانے کی فطری پہچان ہے، یہ بات دل کو واقعی اتنی لگتی ہوئی ہے کہ اس کا تجزیہ کئے بغیر افسانے کے بارے میں کوئی نظریہ نہیں قائم ہو سکتا۔ اس بات کے بااثر ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ’’واقعہ‘‘ یعنی event کی تعریف متعین کرنے میں ضروری تشخص سے کام نہیں لیا گیا۔ لہٰذا یہ بھی ضروری ہے کہ ’’واقعہ‘‘ کی وضاحت کی سعی کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ہر وہ بات جو ہوتی ہے، اسے ہم واقعہ کہتے ہیں۔
اگر وہ بات مستقبل میں بھی ہونے والی ہے تو ہم اسے مستقبل میں پیش آنے والا یا وجود میں آنے والا واقعہ کہتے ہیں۔ مثلاً ہم اگر کوئی ناول پڑھ رہے ہیں تو ہم اپنے آپ سے، یا مصنف سے، یا کسی اور شخص سے، جس نے وہ ناول پڑھا ہو، یہ ہر وقت پوچھ سکتے ہیں کہ اب کیا واقعہ پیش آئےگا؟ اسی طرح اگر ہم کسی ایسے وقوعے کی روداد پڑھ یا سن رہے ہیں جو درحقیقت ہو چکا ہے، تو بھی ہم یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ اب کیا واقعہ پیش آئےگا؟ لہٰذا ’’واقعہ‘‘ یعنی eventا پنے تجریدی معنوں میں ماضی، حال یا مستقبل کا محتاج نہیں ہوتا۔ لیکن صرف اتنا کہہ دینے سے افسانے میں واقعے کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ مثال کے طور پر واقعات کی چند ترتیبیں حسب ذیل ہیں،
(۱) زید ایک کتاب پڑھ رہا تھا، اچانک اس کے پیٹ میں درد ٹھا، اسے خون کی قے ہوئی اور وہ مر گیا۔
(۲) زید ایک کتاب پڑھ رہا تھا اور سیب کھا رہا تھا۔ اچانک اس کے پیٹ میں سخت درد اٹھا۔ اسے خون کی قے ہوئی اور وہ مرگیا۔
(۳) زید ایک کتاب پڑھ رہا تھا اور سیب کھا رہا تھا۔ کتاب کا نام تاریخ طبری تھا۔ اچانک اس کے پیٹ میں سخت درد اٹھا، اسے خون کی قے ہوئی اور وہ تڑپ تڑپ کر مر گیا۔
ان تینوں عبارتوں میں مرکزی واقعہ ایک ہے، یعنی زید کی اچانک موت۔ یعنی ان عبارتوں میں زید کی موت کی اطلاع دی گئی ہے۔ لیکن ان کا اطلاعاتی مواد برابر نہیں۔ پہلی عبارت میں چار اطلاعات ہیں، زید ایک کتاب پڑھ رہا تھا، اچانک اس کے پیٹ میں درد اٹھا، اسے خون کی قے ہوئی، اور وہ مر گیا۔ دوسری عبارت میں ایک واقعہ اور بتایا گیا ہے، یعنی زید کتاب پڑھتے وقت سیب کھا رہا تھا۔ پھر اس میں ایک واقعے کی تفصیل بڑھا دی گئی ہے، یعنی اس کے پیٹ میں ’’سخت‘‘ درد اٹھا۔ تیسری عبارت میں مزید اطلاع دی گئی ہے کہ کتاب کا نام کیا تھا اور اس کی موت کے بارے میں یہ تفصیل بڑھا دی گئی ہے کہ وہ تڑپ تڑپ کر مرا۔
لہٰذا اب ہم یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ اگر زید کی موت مرکزی واقعہ event ہے اور اس کا سبب اس کے پیٹ کا درد ہے تو باقی واقعات، واقعات ہیں کہ نہیں؟ اگر واقعے سے مراد ہر وہ بات ہے جو ہوئی ہو تو یقیناً یہ سب تفصیلات واقعے کی ضمن میں آتی ہیں۔ لیکن اگر واقعے سے مراد کوئی مرکزی واقعہ ہے (یعنی ایسا واقعہ جس کو بیان کرنے کے لئے کوئی عبارت لکھی گئی اور جس کو بیان نہ کیا جاتا تو عبارت ادھوری رہ جاتی یا اس سے ہمیں کوئی اطلاع نہ ملتی۔ یعنی یہ نہ معلوم ہوتا کہ وہ عبارت کیوں لکھی گئی۔) تو پھر زید کی موت اور اس موت کے سبب کے علاوہ تمام واقعات پر ’’واقعہ‘‘ event کی اصطلاح کا اطلاق غیر ضروری بلکہ نقصان دہ ہے۔
کیوں کہ اگر سب باتیں ’’واقعہ‘‘ ہیں تو سب باتوں کی اہمیت برابر ہونا چاہیے (جیسا کہ ارسطو نے کہا ہے۔) لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ عبارت نمبر ایک تا عبارت نمبر تین میں بیان کردہ ہر بات برابر کی اہمیت نہیں رکھتی۔ مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نمبر ایک تا نمبر تین میں جو تفصیلات دی گئی ہیں وہ اصل مرکزی واقعے (یعنی اس واقعے جس کو بیان کرنے کے لئے یہ عبارتیں لکھی گئیں) کے بارے میں کچھ اطلاعات ضرور بہم پہنچاتی ہیں۔ یہ اطلاعات تین طرح کی ہو سکتی ہیں،
(۱) جن سے اصل واقعے پر روشنی پڑے، یعنی جن سے اصل واقعے کے بارے میں ایسی باتیں معلوم ہوں جو اصل واقعے کے بارے میں ہماری معلومات میں اضافہ کریں۔
(۲) جن سے اصل واقعے پر کوئی روشنی نہ پڑے۔
(۳) جن کے بارے میں ہم فوری طور پر (یا شاید کبھی) یہ فیصلہ نہ کر سکیں کہ ان سے اصل واقعے پر روشنی پڑتی ہے یا نہیں۔
جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، اصل واقعہ تو زید کی موت ہے۔ لہٰذا مندرجہ ذیل ’’واقعات‘‘ محض ’’اطلاعات‘‘ کے ذیل میں ہیں،
(۱) زید ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔
(۲) زید کے پیٹ میں اچانک درد اٹھا۔
(۳) درد بہت سخت تھا۔
(۴) زید کو خون کی قے ہوئی۔
(۵) زید کتاب پڑھتے وقت سیب کھا رہا تھا۔
(۶) کتاب کا نام تاریخ طبری تھا۔
(۷) زید کی موت تڑپ تڑپ کر واقع ہوئی۔
ظاہر ہے زید کا کتاب پڑھنا اور اس کتاب کا نام ایسے واقعات ہیں جن سے اصل واقعے پر بظاہر کوئی روشنی نہیں پڑتی۔ زید کا سیب کھانا ایسا واقعہ ہے جس کے بارے میں ہم فیصلہ نہیں کر سکتے کہ اس کا اصل واقعے سے کوئی تعلق ہے کہ نہیں۔ اگر سیب زہریلا تھا یا س میں کوئی چیز تھی جو خونی امتلا کا باعث بن سکتی تو زید کا سیب کھانا ایک اہم بات ہو سکتی تھی۔ فی الحال یہ اطلاع ہمارے لئے بیکار معلوم ہوتی ہے، لیکن امکان ہے کہ یہ اطلاع بےکار نہ ہو۔ زید کا خونی امتلا بھی ایک بین بین حیثیت رکھتا ہے۔
ہمیں یہ نہیں معلوم کہ زید کو کوئی ایسی بیماری تھی جس میں سیب کھانا نقصان دہ ہو سکتا ہے اور اس کو کھانے سے خونی قے ہو سکتی ہے۔ زید کی موت واقع ہو گئی۔ اسے قتل نہیں کیا گیا، نہ پھانسی پر لٹکایا گیا، اس لئے اس کا خونی امتلا ہمارے لئے اہم نہیں معلوم ہوتا، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس واقعے کا ذکر مرکزی واقعے (یعنی زید کی موت) میں ایک خواہ مخواہ کی دردناکی پیدا کر دیتا ہے۔ لہٰذا یہ فیصلہ بظاہر ممکن نہیں کہ اس اطلاع کی اہمیت کیا ہے؟ اگر کسی واقعے کو دردناک بناکر پیش کرنے سے اس کی قیمت یا اہمیت میں اضافہ ہو سکتا ہے تو خونی امتلا کی اہمیت ہے، ورنہ نہیں۔
لیکن یہ اہمیت (یعنی واقعے کا دردناک ہونا) خود اس واقعے کے بارے میں ہماری معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کرتی، کیوں کہ ہم یہ پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ زید کے پیٹ میں اچانک درد اٹھا تھا اور وہ مرگیا۔ جب یہ بات معلوم ہو گئی تو یہ بات بھی طے ہو گئی کہ اس کی موت تکلیف سے ہوئی۔ لہٰذا خونی امتلا کی اہمیت مشتبہ رہتی ہے۔ یہی حال تڑپ تڑپ کر مرنے کا ہے۔
اس کے بارے میں بھی فیصلہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم یہ تسلیم کریں کہ کسی واقعے کی دردناکی کا حال اس واقعے کی اہمیت میں اضافہ کرتا ہے، یعنی اس کے بارے میں ہماری معلومات میں اضافہ کرتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس تفصیل کی اہمیت ہے کہ زید تڑپ تڑپ کر مرا۔ ورنہ یہ فروعی بیان سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ داستان امیر حمزہ میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ کسی اہم سے اہم کردار کی بھی موت کو بہت مفصل طریقے سے بیان کیا گیا ہو۔ داستان گو شاید اس حقیقت سے واقف تھے کہ کسی واقعے کی دردناک تفصیلات واقعے کی اہمیت یا معنی خیزی میں اضافہ نہیں کرتیں۔
اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ زید کی موت کے بارے میں وہی معلومات اصل واقعہ کا حکم رکھتی ہیں جو ہمیں اس واقعے کے بارے میں کوئی ضروری اطلاع بہم پہنچائیں، اس لئے مندرجہ بالاتینوں عبارتوں میں صرف ایک معلومات (یعنی ایک اطلاع) اصل واقعے کا حکم رکھتی ہے، اور وہ یہ کہ زید کے پیٹ میں درد اٹھا جس کی وجہ سے اس کی موت ہوئی۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں پہلے تو واقعہ اور اطلاع میں فرق کرنا چاہیے، پھر اطلاع کے مراتب میں فرق کرنا چاہے۔ اطلاعاتی واقعات چونکہ مرکزی اہمیت کے حامل نہیں ہوتے، اس لئے ان کی ترتیب بھی اہم نہیں ہوتی۔ وہ اطلاعات جو واقعے پر اثر انداز ہوتی ہیں، ان کی ترتیب اہم ہو سکتی ہے۔ لیکن ترتیب کی اہمیت کا یہ مطلب کیوں ہو کہ واقعات اور اطلاعات کو یوں ترتیب دیا جائے کہ ان میں علت اور معلول کا تعلق واضح ہو؟ اس کے جواب میں ارسطو نے کہا ہے (اور پرنس نے اس کا اتباع کیا ہے) کہ ہمیں وہی واقعات دلچسپ معلوم ہوتے ہیں جن میں علت اور معلول کا رشتہ ہو۔
لیکن ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ زید کی موت کے بارے میں بہت سی اطلاعات بھی دلچسپ ہیں، کیونکہ ان کے بارے میں یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ ان اطلاعات اور اصل واقعے میں علت اور معلول کا تعلق ہے کہ نہیں۔ ہم بعض واقعات کو اطلاعات کی ضمن میں رکھتے ہیں اور ان کے مراتب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ہم ان اطلاعات کو نظرانداز کر دیتے ہیں جن کے ذریعے ہمیں مرکزی واقعے کے بارے میں، یا اس کی قیمت کے بارے میں کوئی فائدہ نہیں حاصل ہوتا۔
جن اطلاعات سے ہمیں یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے، ہم انہیں اصل واقعے کے حکم میں رکھ دیتے ہیں اور جن اطلاعات کے بارے میں ہم گومگو میں رہتے ہیں، ان پر ہم طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔ مرکزی واقعہ جتنا ہی اہم ہوگا، ایسی گومگو والی اطلاعات کے بارے میں ہماری قیاس آرائیاں بھی اتنی ہی تیز، اتنی ہی مفصل اور اتنی ہی پیچیدہ ہوں گی۔
فرض کیجئے زید، جس کی موت کا واقعہ ہم پڑھ رہے ہیں، کوئی بادشاہ یا کوئی اہم شخصیت تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کی موت بھی اہم ہوگی۔ اب ہم اس قیاس آرائی پر مجبور ہوں گے کہ کیا سیب زہریلا تھا؟ اگر خونی امتلائی مادے کا تجزیہ کیا جاتا تو کیا نتیجہ نکلتا؟ شاید یہ کہ زید کو جگر کا سرطان تھا اور اس کا جگر اچانک شق ہو گیا؟ اگر ہم قیاس آرائی میں تخیل کو کام میں لائیں گے تو یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ شاید تاریخ کی کتاب میں کوئی ایسا واقعہ تھا جس نے زید پر یہ اثر کیا۔ ہم یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ شاید کتاب کے اوراق میں زہر لگا ہوا ہو وغیرہ۔
اس قیاس آرائی کی زندہ مثال ہیملٹ کے بارے میں ہمارے اس سوال کے جوابات ہیں کہ وہ اپنے غاصب چچا Claudius کو قتل کرنے میں اتنی تاخیر کیوں کرتا ہے؟ اس آسان جواب سے لے کر کہ گر وہ دیر نہ کرے تو ڈراما جلد ختم ہو جائے، ڈاکٹر جانسن اور ارنسٹ جونز اور ٹی۔ ایس۔ الیٹ تک صدہا جواب دئے گئے ہیں، یعنی صدہا قیاس آرائیاں کی گئی ہیں۔ لہٰذا یہ بات صحیح نہیں کہ ہمیں دلچسپی انہیں واقعات سے ہوتی ہے جن میں علت اور معلول کا رشتہ واضح ہو۔ بعض اوقات تو علت غیر اہم بلکہ معدوم ہو جاتی ہے۔ انتظار حسین کے افسانے ’’آخری آدمی‘‘ میں علت واضح نہیں ہے۔ لیکن افسانے میں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں۔ کیونکہ اگر علت محض اتنی ہے کہ بعض لوگوں نے یوم السبت پر بھی مچھلیاں پکڑنے کا کام کیا اس لئے بندر بن گئے، تو یہ ایک اساطیری واقعہ ہے۔ ہم اسے پہلے سے جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ عقیدے کی رو سے یہ بالکل صحیح اور عقل کی رو سے محض اسطور ہے۔
دونوں صورتوں میں علت غیر اہم ہے، کیونکہ اس کا تعلق نہ قاعدے سے ہے نہ ضرورت سے، نہ لزوم سے نہ احتمال سے۔ کافکا کے افسانے Metamorphosis میں علت ہے ہی نہیں۔ ایک شخص اچانک صبح کو مکوڑے میں تبدیل ہو جاتا ہے، یا جب وہ سوکر اٹھتا ہے تو خود کو ایک مکوڑا دیکھتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مکوڑا نہ ہو، بلکہ وہ اور اس کا سارا خاندان کسی اجتماعی تنویم کا شکار ہوں۔ علت معلوم نہیں، اور اگر معلوم بھی ہو تو اہم نہیں، معلول سب کچھ ہے۔ (مثلاً کافکا کے افسانے کے بارے میں یہ سوال کوئی نہیں کرتا کہ گریگر سامسا (Gregor Samsa) مکوڑے میں کیوں اور کیسے تبدیل ہوا، جب کہ ہیملٹ کے بارے میں سب پوچھتے ہیں اس نے دیر کیوں کی؟) لہٰذا ارسطوئی تنظیم کے علی الرغم پلاٹ کو یوں بھی بیان کر سکتے ہیں، غیر اہم اطلاعات، اہم اطلاعات، مبہم اطلاعات، واقعہ، انجام۔
واقعہ اور انجام میں کوئی رشتہ ظاہر نہ ہو تو بعض اوقات الجھن ضرور پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ انجام اسی وقت عمل میں آتا ہے جب وہ واقعے کے نتیجے میں ہو۔ لاطینی مقولہ Post hoc, ergo, propter hoc (اس بات کے بعد، لہٰذا، اس بات کی وجہ سے) اس منطقی مغالطے کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ایک بات کے بعد دوسری بات واقع ہو تو دونوں میں لازماً علت اور معلول کا رشتہ ہوگا۔ امام غزالی نے بہت پہلے اور ان کے صدیوں بعد ہیوم (David Hume) نے یہ بات ہمیں بتائی کہ ایک کے بعد دوسری بات واقع ہو تو ان میں لازمی رشتہ علت اور معلول کا نہیں ہوتا۔ بقول غزالی، یہ رشتہ تفاعل (Function) کا ہو سکتا ہے۔ کہانی (Fiction) کے نقادوں کو چاہیے کہ علت اور معلول کے تعصب کو اپنے ذہنوں سے نکال پھینکیں۔
کہانی کی بنیادی ضرورت یہ ہے کہ واقعے سے متعلق جو اطلاعات اس میں بہم پہنچائی جائیں، وہ واقعے کے بارے میں ہی ہوں، چاہے وہ اہم ہوں یا غیر اہم ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر بہت سی غیر اہم اطلاعات جمع کر دی جائیں گی تو خود واقعے کی اہمیت دھندلی پڑ سکتی ہے، لیکن اس بات کا تعلق افسانے یا قصے کی تکنیک سے ہے، ڈھانچے سے نہیں۔ اطلاعات جب تک واقعے سے متعلق ہوں گی (چاہے وہ اس واقعے کے بارے میں ہماری معلومات، یعنی اس واقعے کی تعیین مقرر کرنے میں امداد کرنے والے حقائق میں اضافہ کریں یا نہ کریں) افسانے کی تعمیر میں کچھ نہ کچھ کارآمد ضرور ہوں گی۔ مثال کے طور پر زید کی موت کے واقعے میں مندرجہ ذیل اطلاعات کا اضافہ کر لیجئے،
زید کی عمر چالیس سال کی تھی۔ وہ شادی شدہ تھا۔ موت کے وقت اس کی بیوی اس کے پاس نہیں تھی لیکن بچے موجود تھے۔ زید کو پڑھنے لکھنے سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا۔ اسے سیب کھانے کا بھی شوق نہ تھا، یہ محض اتفاق تھا کہ وہ اس دن کتاب بھی دیکھ رہا تھا اور سیب بھی کھا رہا تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان اطلاعات میں بعض ایسی بھی ہیں جو اطلاع اور واقعے کے بین بین ہیں اور ان کے بارے میں قیاس آرائی ہو سکتی ہے۔ مثلاً یہ کہ اگر زید کو کتاب پڑھنے اور سیب کھانے کا شوق نہ تھا تو وہ اس دن ایسا کیوں کر رہا تھا؟ اگر اس کی عمر محض چالیس سال کی تھی تو اس کا امکان کم ہے کہ اس کو جگر کا سرطان رہا ہو، لیکن یہ امکان ہے کہ اگر وہ شرابی تھا تو اس کا جگر ماؤف ہو چکا ہو وغیرہ۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب قیاس آرائیاں درست، لیکن چونکہ خود زید کی موت (جو کہ مرکزی واقعہ ہے) ہمارے لئے اہم نہیں، اس لئے ہم ان جھمیلوں میں کیوں پڑیں؟ بات صحیح ہے، لیکن اس کا بھی تعلق افسانے کے ڈھانچے سے نہیں، بلکہ اس کی معنویت سے ہے۔ اگر زید (جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں) کوئی بادشاہ ہوتا یا کسی بھی طرح سے ہمارے لئے جذبے یا تجربے کی سطح پر اہم ہوتا (جیسا کہ ہیملٹ ہے) تو ہم ضرور قیاس آرائیاں کرتے۔ موجودہ صورت میں ہمیں اس بات سے بحث ہی نہیں کہ یہ افسانہ عظیم ہے یا حقیر۔ بحث تو صرف یہ ہے کہ زید کی موت کا واقعہ جس طرح بیان ہوا، اس کی بنا پر وہ افسانہ یا قصہ ہے کہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے، کیونکہ ایک مرکزی واقعہ ہے اور اس کے بارے میں بہت سی اطلاعات ہیں اور ان اطلاعات کے مراتب ہیں، جن کے باعث ہم مرکزی واقعے کی تعیین قدر میں تشخص کرتے ہیں۔ افسانہ اسی کو تو کہتے ہیں۔
اگر افسانے میں اطلاعات اور واقعات اہم نہ ہوتے، بلکہ ان کا واضح ربط علِی اہم ہوتا تو ہم بہت سے افسانوں کو افسانہ ماننے سے انکار کر دیتے۔ اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ ہم زید کی موت والے بیان کو افسانہ ماننے سے انکار کر بھی دیں تو مجنوں گورکھپوری کے افسانے ’’تصادم‘‘ کو افسانہ ماننے سے انکار نہیں کر سکتے، حالانکہ اس میں دو ریل گاڑیوں کے تصادم کی علت یہ دکھائی گئی ہے کہ اسٹیشن ماسٹر صاحب قضائے حاجت کو گئے ہوئے تھے اور ان کے ماتحت نے لاعلمی کی بنا پر دو گاڑیوں کو بہ یک وقت لائن کلیر دے دیا۔
یہ علت ایسی ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ حادثہ غلطی سے ہو گیا۔ یعنی اس علت کا دارومدار ایک ایسے وقوعے پر ہے جو کسی منطق پر قائم نہیں ہوتا۔ اس بات سے بحث نہیں کہ ’’تصادم‘‘ اچھا افسانہ ہے کہ نہیں، کیوں کہ یہ بحث پھر ہمیں اپنے مرکزی سوال سے دور لے جائے گی کہ پلاٹ کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں۔ کون سا پلاٹ اچھے افسانے بناتا ہے ایک مہمل سوال ہے، کیوں کہ یہ اسی طرح کا سوال ہے کہ کون سا موضوع اچھے شعر کو جنم دیتا ہے۔
پلاٹ میں واضح ربط علِی ہونے کے باوجود افسانہ ہمیشہ قائم نہیں ہوتا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ علتیں اور وہ معلول جو روز مرہ کے مشاہدے اور حقیقت سے تعلق رکھتے ہیں، ان پر حقیقت کا بار اس قدر زبردست ہوتا ہے کہ ان کا افسانہ پن غائب ہو جاتا ہے اور وہ قصے کی جگہ اصلیت کے دائرے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ سچا واقعہ افسانہ بن سکتا ہے، لیکن واقعے کا سچا ہونا افسانے کے لئے مشروط نہیں ہے، صرف واقعے کا ہونا مشروط ہے۔ لہٰذا جب افسانے پر سچے واقعے کا گمان اس طرح ہو کہ یہ تو روز مرہ کے مشاہدے کی حد میں ہے، تو اس کا افسانہ ہونا مشکوک ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر دو عبارتیں دیکھئے،
(۱) زید جوان ہوا۔ اس کے داڑھی مونچھیں نکل آئیں۔ اس نے شیو کرنا شروع کر دیا۔
(۲) زید جوان ہوا۔ اس کے داڑھی مونچھیں نکل آئیں۔ لیکن اس نے شیو کرنا نہیں شروع کیا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ عبارت نمبر ایک کے تینوں واقعات میں علت اور معلول کا رشتہ ہے۔ لیکن افسانہ قائم نہیں ہوا۔ کیوں کہ جوان ہونے پر شیو کرنے لگنا روزمرہ کے مشاہدے کی بات ہے، اس میں کچھ افسانہ پن (fictiveness) نہیں ہے۔ اس کے برخلاف عبارت نمبر دو میں آخری واقعہ (اس نے شیو کرنا نہیں شروع کیا) پچھلے کسی واقعے کا معلول نہیں ہے لیکن اسی وجہ سے افسانہ قائم ہو گیا۔ کیوں کہ ایک ایسی اطلاع بہم پہنچائی گئی جس کے بارے میں قیاس آرائی ممکن ہے، محض اس وجہ سے کہ وہ اطلاع کسی علت کا معلول نہیں ہے۔ فرض کیجئے یہ عبارت یوں ہوتی،
(۳) زید جوان ہوا۔ اس کے داڑھی مونچھیں نکل آئیں لیکن چونکہ وہ پابند شرع تھا اس لئے اس نے شیو کرنا نہیں شروع کیا۔
اب علت اور معلول پوری طرح موجود ہیں، لیکن افسانہ غائب ہو گیا، کیوں کہ علت کی وضاحت نے واقعے کو حقیقت کا ایسا رنگ دے دیا کہ افسانے کو جائے قیام نہ رہی۔ لیکن یہ کہنا کہ پلاٹ کے لئے علت اور معلول کی ترتیب ضروری نہیں ہے، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو ہم بہت سے افسانوں کو افسانہ ماننے سے انکار کر دیتے، اسی طرح کی دلیل ہے کہ ہم ان عبارتوں کو فطری اور جبلی طور پر افسانہ مان لیتے ہیں جن میں یہ ترتیب ہوتی ہے۔ یہ دونوں استدلال بعض تحریروں اور تقریروں (یعنی قصوں) کو دیکھ کر بنائے گئے ہیں۔ ان میں خرابی یہ ہے کہ ان کی طرح کا کوئی بھی مفروضہ بناکر ایسے افسانے تلاش کئے جا سکتے ہیں جن پر وہ افسانے پورے اترتے ہیں۔ یعنی یہ استدلال منطقی سے زیادہ وجدانی ہیں۔
لہٰذا ضروری ہے کہ کوئی ایسا استدلال بھی تلاش کیا جائے جو کم و بیش منطق پر قائم ہو۔ ایک استدلال تو ہم دیکھ چکے ہیں کہ اگر عبارت میں علت واضح نہ ہو لیکن اطلاعات کی فراوانی ہو تو قیاس آرائی پید ا ہوتی ہے جو دلچسپی کی دلیل ہے۔ ارسطو نے یہی تو کہا تھا کہ ہمیں دلچسپی انہیں واقعات سے ہوتی ہے جن میں علت اور معلول کی ترتیب ہو۔ جب ہم نے یہ دیکھ لیا کہ علت کی عدم موجودگی، لیکن اطلاعات کی فراوانی بھی دلچسپی پیدا کر سکتی ہے تو ہمارا استدلال قائم ہو گیا۔ لیکن اس ایک استدلال کے علاوہ بھی بعض دلائل ممکن ہیں۔ اگر اس مفروضے (یعنی پلاٹ میں علت اور معلول ہونا چاہیے) کو وضع کرنے کے لئے جس طریق کار کو کام میں لایا گیا ہے، اس کا محاکمہ کیا جائے۔
اس طریق کار کو کارل پاپر نے ’’جوہریت‘‘ (Essentialism) کا نام دیا ہے۔ افلاطون اور ارسطو دونوں کا خیال تھا کہ ’’علم‘‘ اور ’’رائے‘‘ میں فرق ہے۔ اشیا کے جوہر کو جاننا ’’علم‘‘ ہے اور اشیا کے بارے میں جاننا کہ وہ کس وقت کیسی نظر آتی ہیں، محض ’’رائے‘‘ ہے۔ اشیا کا جوہر جاننا ایک طرح کی وہبی اور وجدانی چیز ہے، کیوں کہ ہمارا علم ایسا نہیں ہے جسے منطق یا مشاہدے کی رو سے ثابت کیا جا سکے۔ ارسطو کا خیال تھا کہ اشیا کے صحیح نام بیان کرنا گویا ان کے جوہر بیان کرنا ہے۔ اسی لئے اس نے کہا کہ ’’اصل علم اور شے ایک ہی چیز ہیں۔‘‘ یعنی اشیا کا علم ان سے الگ کوئی شے نہیں ہے۔ اگر اشیا کی تعریف کر دی جائے تو ان کا علم بھی حاصل ہو جائےگا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ارسطو کی نظر میں سارا ’’علم‘‘ تعریفات پر مبنی ہوا اور تعریفات بیان کرنا منطق سے زیادہ وجدان کا کام ہے۔ چنانچہ اس نے المیے کی تعریف یہ متعین کی کہ وہ ’’ایک ایسے عمل کی نمائندگی ہے جو سنجیدہ توجہ کے لائق، بذات خود مکمل اور ایک خاص حجم کا حامل ہے۔‘‘ اور چونکہ ’’المیہ انسانوں کی نہیں بلکہ کسی عمل اور زندگی کی تصویر کشی کرتا ہے۔‘‘ اور اس کا مقصد ’’واقعات اور پلاٹ کو پیش کرنا ہے۔‘‘ اس لئے ’’پلاٹ کے بغیر المیہ قائم نہیں ہو سکتا۔‘‘
اس طریق کار کی خرابی اس وقت واضح ہوتی ہے جب یہ سوال اٹھایا جائے کہ ارسطو کی یہ تعریف کس سوال کے جواب میں ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ سوال ہے، ’’المیہ کیا ہے؟‘‘ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ’’فلاں چیز کیا ہے؟‘‘ کا جواب ہم جو چاہیں دے سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ جو چیز ہماری تعریف پر پوری نہیں اترتی، وہ چیز نہیں ہے جس کی ہم تعریف کر رہے ہیں۔ مثلاً سوال یہ ہو کہ ’’بلی کیا ہے؟‘‘ تو ہم جواب میں کہہ سکتے ہیں کہ بلی وہ شے ہے جو ہوا میں اڑتی ہے۔ اب اگر ہمیں کوئی ایسی بلی دکھائی جائے جو ہوا میں نہ اڑتی ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری تعریف کی رو سے یہ بلی نہیں ہے۔ اس طرح تعریف اور معروف میں کوئی رشتہ باقی نہیں رہ جاتا اور تعریف محض عقیدہ بن کر رہ جاتی ہے۔
’’پلاٹ کیا ہے؟‘‘ کے جواب میں ارسطو کے پیرو کہتے ہیں کہ پلاٹ وہ شے ہے جس کے واقعات میں علت اور معلول کا ربط ہو۔ لہٰذا ہر وہ شے جس میں علت اور معلول کا ربط نہ ہو، پلاٹ کی تعریف سے خارج ہو جاتی ہے۔ چنانچہ طریق کار یہ نہ ہونا چاہیے کہ ’’کیا ہے؟‘‘ والے سوال اٹھائے جائیں۔ بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ ’’کیا کام کرتا ہے؟‘‘ والے سوال اٹھائے جائیں۔ اس طریق کار کی اہمیت اور سچائی اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب ہم ’’بجلی کیا ہے؟‘‘ اور ’’بجلی کیا کام کرتی ہے؟‘‘ ان دو سوالوں کے جواب تلاش کرنا شروع کر دیں۔ ظاہر ہے کہ ’’بجلی کیا ہے؟‘‘ کا جواب جو بھی دیا جائےگا، وہ یا تو مہمل ہوگا یا جھوٹ ہوگا۔ اسی لئے برٹرنڈرسل (Bertrand Russell) نے کہا تھا کہ بجلی کوئی چیز نہیں ہے، بلکہ ایک صورت حال ہے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو سوالات سائنس کے مسائل سے متعلق ہیں ان کو ادب یا فلسفے پر منطبق کرنا ٹھیک نہیں۔ لیکن یہ سوال اس غلط فہمی پر مبنی ہے کہ سائنس کے مسئلے پر چھان بین ایسے حقائق کو دریافت کر سکتی ہے جو ناقابل تردید ہوں، جب کہ فلسفیانہ مسائل کی صورت حال ایسی نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ سائنسی مسائل کے حل بھی قطعی اور حتمی نہیں ہوتے۔ فی الحال اس کی تفصیل کا موقع نہیں، لیکن یہ کہنا ضروری ہے کہ ہر طرح کے مسائل پر چھان بین کا طریق کار بنیادی طور پر ایک ہی ہونا چاہیے۔
لہٰذا پلاٹ کے بارے میں سوال اگر یہ ہو کہ ’’پلاٹ کیا کرتا ہے؟‘‘ تو جواب یہی ملےگا کہ ’’واقعات کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ دلچسپی پیدا ہو۔‘‘ اس جواب کی روشنی میں مزید سوالات قائم ہو سکتے ہیں۔ اس کے برخلاف ارسطو کا طریق کار دوری (circular) ہونے کی بنا پر ایسی تعریف برآمد کرتا ہے جو ہر اس چیز کو رد کر دیتی ہے جس پر اس تعریف کا اطلاق نہ ہو سکے۔ اسے اس سے غرض نہیں کہ جن چیزوں پر اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا، ان کو خارج کر دینے سے تعریف کے بے معنی ہو جانے کا امکان ہے۔