پلاسٹک سے چلے گی کار اور روشن ہوگا گھر: پلاسٹک سے ہائیڈروجن ایندھن کی پیداوار
آلودگی کی فہرست میں نیا دشمن پلاسٹک ہے جس کے ذرات خون اور پھیپھڑوں تک جارہے ہیں۔ ایکوواچ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال دس سمندری پرندے اور ایک لاکھ سمندری جانور پلاسٹک کی آلودگی کی وجہ سے مارے جاتے ہیں۔ ہر سال اتنا پلاسٹک پھینکا جاتا ہے کہ وہ پوری دنیا کے گرد چار دفعہ لپیٹا جاسکتا ہے۔ تقریباً پچاس فیصد پلاسٹک صرف ایک بار استعمال کرکے پھینک دیا جاتا ہے۔ لیکن خوش کن خبر یہ ہے سنگاپور میں بے کار پلاسٹک سے ہائیڈروجن گیس (ماحول دوست ایندھن) بنانے کا کامیاب تجربہ ہوا ہے۔
. پلاسٹک یا پولی تھین شاپر یا تھیلوں کی تیاری میں رکازی ایندھن ( فوسل فیولز) کو استعمال کیا جاتا ہے۔ فوسل فیول فضائی آلودگی کا سب سے بڑا ذمہ دار عامل ہے۔ یہ ہزاروں برس تک تحلیل نہیں ہوتا۔ یعنی یہ ہزاروں برس تک ہمارے لیے سردرد کا باعث رہتا ہے۔ پلاسٹک کو دوبارہ استعمال کرنا (reuse) تقریباً ناممکن ہے جبکہ اسے دوبارہ استعمال کے قابل بنانا (ری سائیکلنگ) بھی بہت مشکل ہے۔ نتیجتاً زمینی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ پیٹ (PET) پلاسٹک (جو زیادہ نقصان دہ نہیں ہے، اس کا دوبارہ استعمال بھی آسان ہے) کے برعکس پلاسٹک شاپر،پولی تھین تھیلے، سٹائروفوم اور کھانے کی پیکجنگ میں استعمال ہونے والے پلاسٹک طویل عرصے تک ری سائیکل اور تحلیل نہیں ہوتے ہیں۔ یہ ماحولیاتی آلودگی (آبی اور فضائی) کے لیے ایک شدید خطرہ بنا ہوا ہے۔دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پلاسٹک کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ پلاسٹک اور پولی تھین بیگ کا کم سے کم استعمال کریں۔ پلاسٹک کے متبادل مواد سے بنی اشیا کو استعمال کرنا چاہیے۔
چونکہ پلاسٹک ہماری زندگیوں میں یوں رچ بس گیا ہے کہ اس کا استعمال ناگزیر لگتا ہے۔ آج کے دور میں پلاسٹک کا استعمال ترک کرنا کسی جہاد سے کم نہیں۔ اس لیے ماہرین اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے متبادل طریقوں اور ٹیکنالوجی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ اس ضمن میں سنگاپور سے ایک تازہ خبر آئی ہے کہ اب بے کار پلاسٹک بھی فائدہ مند ثابت ہوگی۔ پلاسٹک سے ہائیڈروجن گیس پیدا کی جائے گی جو نہ صرف ماحول دوست ہوگی بلکہ معیشت کے بحران پر قابو پانے میں بھی مدد گار ہوگی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ زندہ ہاتھی لاکھ اور مردہ ہاتھی سوا لاکھ کا۔
سنگار پور کی این ٹی یو یونیورسٹی کے ماہرین نے پلاسٹک سے توانائی پیدا کرنے کے لیے پائرولائسس طریقہ کار استعمال کیا ہے۔ پائرولائسس طریقہ کار سے بے کار پلاسٹک سے دو پروڈکٹس ایک ہائیڈروجن گیس اور ٹھوس کاربن جسے کاربن نینو ٹیوب بھی کہا جاتا ہے پیدا ہوتے ہیں۔ ہائیڈروجن بجلی پیدا کرنے اور الیکٹرک گاڑیوں میں بطور ایندھن بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ پراسس دو مراحل پر مشتمل ہے : پہلے مرحلے میں بے کار پلاسٹک کو بلند درجہ حرارت پر گیس جو ہائیڈروجن مالیکیول میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اس گیس کو ایک بڑے ری ایکٹر میں داخل کیا جاتا ہے جہاں پر وہ ہائیڈروجن گیس اور ٹھوس کاربن کی صورت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
سنگار پور یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ رکازی ایندھن ہماری فضا کے لیے ایک خطرناک اور تشویش ناک مسائل پیدا کررہا ہے۔۔۔اس کے متبادل ہائیڈروجن ایندھن سے ماحولیاتی مسائل پر قابو پانے میں معاون ثابت ہوگا۔ جبکہ ٹھوس کاربن (کاربن نینو ٹیوب) کوبھی صنعتی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ اسے کاربن ڈائی آکسائیڈ (گیس) کی نسبت نقل وحمل اور سنبھالنا بھی زیادہ آسان ہے۔
سنگارپور کی ایک مقامی کمپنی نے ایک نیلامی میں اس ٹیکنالوجی کے حقوق خرید لیے ہیں۔ آئندہ تین برس میں تجارتی پیمانے پر پلاسٹک فاضل مادوں سے ہائیڈروجن کی پیداوار شروع ہوجائے گی۔ اس پیش رفت سے کوڑاکرکٹ کے بڑے مسائل (ویسٹ مینجمنٹ) کے لیے نئے راستے نکلیں گے۔ بے کار اشیا یا کوڑا کرکٹ کو توانائی اور مفید وسائل میں تبدیل کیا جاسکتا ہے مثلاً سائنو گیس، کاربن نینو ٹیوب، بائیوکارbiochar (قدرتی کھاد) اور ایکٹی ویٹڈ کاربن وغیرہ
سنگار پور میں سالانہ آٹھ لاکھ ٹن پلاسٹک کا کوڑاکرکٹ پیدا ہوتا ہے۔ ان بے کار اشیا کو ہائیڈروجن میں تبدیل کرکے ایک ہزار سے زائد گھروں کے لیے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اور اتنی ہائیڈروجن گیس (ماحول دوست ایندھن) پیدا ہوگی اس کی مدد سے زمین کے گرد ایک ہزار دفعہ چکر لگا سکتے ہیں۔
پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے کہاں آلودگی، گرین ہاؤس ایفیکٹ اور تبدیلی آب و ہوا کے شدید خطرات لاحق ہیں۔ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ باقاعدہ ماحولیاتی پالیسی اور اقدامات کو بروئے کار لائے جس سے آلودگی کے مسائل سے نبردآزما ہونا ممکن ہو۔ سنگاپور سے مذکورہ بالا ٹیکنالوجی سے کا حصول ممکن بنایا جائے تاکہ ہم آلودگی کے چیلنجز کے ساتھ ساتھ توانائی کے بحران پر بھی قابو پاسکیں۔