پلاسٹک کے تھیلوں سے آزادی آخر کیوں ؟
صحت مند معاشرے کے لیے صحت مند ماحول ضروری ہے۔ پلاسٹک کے تھیلوں کا استعمال ماحولیاتی آلودگی کو بڑھانے کا اہم ذریعہ اور انسانی صحت کے لیے ضرر رساں ہے۔ پلاسٹک کا استعمال غیر ضروری حد تک بڑھ چکا ہے۔ پلاسٹک نے انسانی زندگی اور زمینی ماحول پر خطرناک اثرات مرتب کیے ہیں۔ آج کل مون سون کا موسم ہے اوربارش گلی محلوں میں جل تھل مچا رہی ہے۔ شہروں میں اربن فلڈنگ سب سے بڑا مسئلہ ہے یعنی سڑکیں اور گلیاں کئی گھنٹوں تک پانی سے بھری رہتی ہیں۔ اس کی انتظامی وجوہات کے ساتھ ایک اور وجہ بھی ہے وہ ہے ندی نالوں میں پلاسٹک کے تھیلوں کی بہتات ہونا۔ یہ فضا میں اڑتے پھرتے ہیں جس سے حادثات کا بھی خدشہ ہوتا ہے اور پانی کی نالیوں میں پھنس کر سیوریج کے نظام کو ناکارہ بنادیتے ہیں۔ پھر پلاسٹک کے تھیلے ندی نالوں سے ہوکر نہروں، دریاؤں اور سمندروں میں جا گرتے ہیں جس کی وجہ سے آبی حیات بھی خطرے کا شکار ہے۔ اس لیے اس مسئلے سے چشم پوشی کے بجائے اس کے حل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔
پلاسٹک کے تھیلوں سے آزادی کا عالمی دن
آج یعنی 3 جولائی کو دنیا بھر میں پلاسٹک کے تھیلوں سے آزادی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ عالمی پلاسٹک بیگ فری دن کا مقصد لوگوں میں ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک بیگز( سنگل یُوز پلاسٹک) کے ماحول پر پڑنے والے اثرات اور خطرات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔ تاکہ لوگ ان تھیلوں کے ماحول دوست متبادل تلاش کرسکیں۔
پاکستان میں کتنا پلاسٹک ویسٹ پیدا ہوتا ہے؟
پلاسٹک یورپ مارکیٹ ریسرچ گروپ کی تحقیق کے مطابق 2020ء میں دنیا میں 367 ملین ٹن پلاسٹک ویسٹ پیدا ہوا یعنی پلاسٹک کے تھیلے اور پلاسٹک سے بنی دیگر اشیا زمین پر پھینکی یا جلائی گئیں۔۔ جس میں صرف 9 فیصد پلاسٹک کو ری سائیکل کیا جاسکا۔ ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق پلاسٹک آلودگی عالمی بحران کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر پلاسٹک کے بے تحاشا استعمال کو نہ روکا گیا تو 2040ء تک سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی تین گنا اضافہ ہوجائے گا۔ 2020ء میں صرف پاکستان میں 3.9 ملین ٹن پلاسٹک ویسٹ پیدا ہوا۔ اس میں 70 فیصد ویسٹ (2.6 ملین ٹن) کو تو ٹھکانے ہی نہیں لگایا گیا۔
پلاسٹک کے ماحول اور جانداروں پر اثرات
1۔پلاسٹک کو جلانے یا گرم کرنے سے خطرناک کیمیکلز اور گیسیں خارج ہوتی ہیں جو کہ کئی بیماریوں کا باعث ہے:
سانس کے مسائل (ناک میں انفیکشن،پھیپھڑوں کا انفیکشن وغیرہ)
نظام انہضام کی خرابیاں (پیٹ کی بیماریاں، گردے کی خرابی وغیرہ)
آنکھوں اور جلد کے انفیکشنز وغیرہ
مزید براں پودوں اور پرندوں کی زندگی بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔
2۔ پلاسٹک کی بنی اشیا کو زمین پر پھینکنا یا دبانا
پلاسٹک کی اشیا ہزاروں برس تک تحلیل (ڈی گریڈ) نہیں ہوتی۔ اگر ان کو زمین میں دبا دیا جائے تو زمین کی زرخیزی کم ہونے کے ساتھ ساتھ زہریلے کیمیلز انسانی غذا کا بھی جزو بن جاتے ہیں۔
3۔ پلاسٹک کو پانی میں پھینکنا
آبی حیات کی معدومیت (ایکس ٹنک شن) میں پلاسٹک کا کردار سب سے زیادہ ہے۔ ساحلوں اور دریاؤں کے کناروں پر لاکھوں ٹن پلاسٹک پھینکا جاتا ہے جو کہ آبی حیات کے لیے موت کا سبب ہے۔
ہوش کے ناخن لیجیے۔ پلاسٹک کا استعمال کم کیجیے۔ پلاسٹک کو ری سائیکل اور دوبارہ استعمالکرنے کی عادت بنائے۔
زمین ہمارا گھر ہے، گھر کو تباہ ہونے سے بچائیے۔
پلاسٹک کے تھیلوں سے آزادی کیسے ممکن ہے؟
1۔ پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی لگانا
کسی بھی مسئلے یا ایشو پر قابو پانے کے لیے مقتدر حلقوں کی سنجیدگی اور فعالیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ پلاسٹک کے نقصانات سے نجات کے لیے اس پر حکومتی سطح پر پابندی لگانا اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروانے کی ضرورت ہے۔ 2019ء میں پاکستان ان 128 ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا جہاں پولی تھین (ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک کے تھیلوں) پر پابندی لگا دی گئی۔ پاکستان میں سالانہ چھے لاکھ کلوگرام پلاسٹک تھیلے تیار کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس پابندی کا نفاذ عملی طور پر نظر نہیں آرہا ہے۔ البتہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں کسی حد تک پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال میں کمی آئی۔ وفاقی محمکہ موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان ماحولیاتی تحفط ایجنسی (ای پی اے) نے مل کر اس قانون پر عمل درآمد کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن معاشرے کے تمام طبقات خصوصاً علما ء کرام، اساتذہ، کاروباری حضرات اور گھریلو خواتین پلاسٹک کے تھیلوں کا استعمال روکنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
2۔ پلاسٹک تھیلوں کے متبادل حل نکانا/ کپڑے کے تھیلے استعمال کیجیے
جب شاپنگ بیگز (پولی تھین تھیلے یا بیگز) مارکیٹ میں عام نہیں اس وقت لوگ (خریداری کے لیے) کپڑے کے بنے تھیلے گھر سے لے جاتے تھے۔ دکان دار کاغذ کے لفافے میں اشیا ڈال دیتا تھا،گھر آکر سامان نکال لیا جاتا اور کاغذ کے لفافے کوڑے میں پھینک دیے جاتے جو بعد میں جلد ہی تحلیل (ڈی گریڈ) ہوجاتے تھے۔ گاؤں میں کوڑے کی ڈھیر کو کسان کھاد کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
اب آپ کسی بھی شہر میں چلے جائیں توآپ کو ہر جگہ شاپنگ بیگزکا راج نظر آئے گا۔ کوڑے کے ڈھیر میں 80 فیصد یہی شاپنگ بیگز نظر آئیں گے۔
یہ پلاسٹک کے لفافے یا تھیلے گٹروں اور نالیوں میں جمع ہوکر پانی روک لیتے ہیں،سڑکیں اور گلیاں گندے پانی سے اٹی ہوتی ہیں،ان کو جلانے سے شہر بھر میں بدبو اور آلودگی سے برا حال۔یہ پلاسٹک/شاپنگ بیگز ندی نالیوں،نہروں اور دریاؤں سے ہوتے ہوئے سمندروں میں جا گرتے ہیں۔ یہ مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔ ہزاروں آبی جانور موت کا شکار ہوتے ہیں۔
اگر یہ پلاسٹک سیوریج میں پھنس جائیں تو شہر بھر کے گٹر اُبل رہے ہوتے ہیں،اگر یہ بجلی کی تاروں سے جا اٹکیں تو تیز ہوا چلنے سے اڑ کر گاڑیوں کے شیشوں پر چپک سکتے ہیں جس سے کئی جانوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
پلاسٹک (کی بنی اشیا) کا مسلسل استعمال کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔ پلاسٹک کے برتنوں میں مائیکرو ویو اوون میں کھانا گرم کرنا خود پر ظلم ہے۔ پلاسٹک کے برتنوں کا استعمال ختم کیجیے۔دوران سفر پلاسٹک کپ میں چائے پینے سے بھی گریز کیجیے اگر پلاسٹک کاایک زہریلا مالیکیول بھی جسم میں چلا گیا تو سرطان (کینسر) کی بیماری پیدا ہوسکتی ہے۔ گھروں میں چینی،مٹی اور شیشے کے برتن کا استعمال کیجیے۔
پلاسٹک کئی برس تک تحلیل (ڈی گریڈ) نہیں ہوتا۔ ایک تحقیق کے مطابق صحرا میں دبایا گیا پلاسٹک بھی 30،40 برس بعد ختم ہوتا ہے۔ جب کہ صحرا میں گیارہ مہینے درجہ حرارت 54 ڈگری رہتا ہے اور موسم سرما میں بھی 25 ڈگری سے کم نہیں ہوتا۔ انسانی جسم میں داخل ہونے والا پلاسٹک مالیکول کبھی تحلیل نہیں ہوتا۔امریکی عوام خاکی رنگ کے کاغذی لفافے استعمال کرتے ہیں۔ وہاں شاپنگ بیگز پر پابندی ہے۔ ہم بھی پلاسٹک بیگز کا استعمال ترک کرکے اپنے شہروں کی 80 فیصد آلودگی ختم کر سکتے ہیں۔