عارف نقوی کی کہانی:عمران خان اور پی ٹی آئی کی فنڈنگ سے بل گیٹس تک ابراج گروپ کے کارناموں کی داستان
یونانی حکایات میں ایک کہانی ہے اکریس نامی ایک کردار کی۔ ایسا کردار جس کے موم کے پر تھے۔ اپنی اڑان کے نشے میں وہ اڑتا اڑتا سورج کے نزدیک جا پہنچا۔ سورج کے نزدیک اس کے موم کے پر جل گئے اور وہ سمندر میں گر کر غرق ہو گیا۔ یہ کہانی آج کے عارف نقوی نامی کردار پر بالکل صادق بیٹھتی ہے۔
اس کردار نے صرف دو یا دہائیوں میں پاکستانی ایلیٹ کے عام رکن سے عالمی ایلیٹ کے خاص مرکزی رکن کے طور پر نام بنایا۔ اپنے عروج کے دور میں اس کردار نے امریکی صدر باراک اوباما کے کندھوں سے کندھے ملائے، بل گیٹس کا پارٹنر تھا، ورلڈ اکنامک فورم میں ہر وقت موجود عالمی معاشی جغادریوں کو لیکچر دیا کرتا تھا، فوربز، نیو یارک ٹائمز جیسی جگہوں پر اس کے حق میں تعریفی اداریے لکھے جاتے تھے، ہاورڈ جیسے اداروں کے پروفیسر اپنی تھیوریز کی عملی تصویر اس کردار کے کام کو قرار دیتے تھے، پاکستانی حکومت نے اسے ستارہ امتیاز سے نوازا، نوبل پرائز کی کمیٹی نے اسے ایوارڈ دیا، یہ کردار جان ہاپکن یونی ورسٹی کو فنڈ کرتا تھا، لندن اسکول آف اکنامکس میں پروفیسر شپ کی کرسی اس کے تعاون سے موجود تھی، سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے فیملی ڈنر یہ سپانسر کرتا تھا، برطانوی شہزادے چارلس اپنی خیراتی کمپینز میں اسے ہمراہ رکھتے تھے، انٹرپول نے اپنا پاسپورٹ اسے دے رکھا تھا، یہ انٹر پول فاؤنڈیشن جو انٹر پول پولیس کو دیکھتی ہے، کا بورڈ ممبر تھا۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی ایگزیکٹو رکنیت بھی اس کے پاس تھی۔ سابقہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اس کے دوست تھے اور کئی عالمی طاقت ور لوگ تو اس کی نوکری کرتے پھرتے تھے۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کردار خود کتنا طاقت ور تھا ۔بات یہ پرانی نہیں ہے جنوری 2018 کے بعد تک کی ہے۔ لیکن پھر نا معلوم ای میل نے شیشے کے اس گھر پر ایسا پتھر مارا کہ سب کرچیوں کی صورت بکھر گیا۔
ایک نامعلوم ای میل میں ایسا کیا تھا کہ عارف نقوی دنیا کی نظر میں ترقی کےعلم بردار سے فراڈیا بن گیا؟ عارف نقوی نے ایسا کیا کیا تھا کہ اک دنیا اس کی گرویدہ تھی، لیکن سائمن کلارک نے جو کتاب لکھی اس کا پورا نام لکھا کہ دا کی مین: ہاؤ دا گلوبل ایلیٹ واز ڈوپڈ (The Key Man: How the Global Elite Was Duped) یعنی کیسے عالمی اشرافیہ کو چونا لگا؟کیا عارف نقوی ایک مسلم ٹیلنٹ تھا جس کو گرانے کے پیچھے کوئی عالمی سازش ہےیا کہانی میں کچھ تلخ حقائق موجود ہیں؟ کراچی الیکٹرک کمپنی کی کہانی کیا ہے؟ عمران خان سے کیا تعلق تھا ؟ فنانشل ٹائمز کی کہانی میں سائمن کلارک نے کیا لکھا ہے؟سائمن کلارک کو سب کیسے پتہ چلا؟ آج کی تحریر میں سب سوالات سے پردہ فشانی ہوگی۔ ساتھ رہیے گا۔
یاد رہے کہ اس تحریر میں معلومات سائمن کلارک کی ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل کتاب دا کی مین (The Key Man)، وال سٹریٹ جرنل اور فائننشل ٹائمز میں عارف نقوی سے منسلک مضامین سے لی جا رہی ہے۔
عارف نقوی کون ہیں؟
عارف نقوی کراچی کے شہری ہیں، جہاں صدی پرانے گورے کے بنائے اشرافیہ کے اسکول کراچی گرائمر سے انہوں نے تعلیم پائی۔ عارف نقوی نے لندن اسکول آف اکنامکس سے 1982 میں گریجوایشن کیا اور 1985 میں ڈگری اور بیگم دونوں تھامے پاکستان واپس آئے۔ سائمن کلارک کے مطابق وہ کوئی بہت مال دار گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ بس پاکستان میں ایسا گھرانہ جو متوسط سے ذرا کچھ اوپر ہو۔ بیگم فائزہ چندریگر ان کی اسکول فیلو تھی، جو لندن اسکول آف اکنامکس میں بھی موجود تھیں۔ وہیں اللہ میاں نے جوڑی بنا دی۔ عارف نقوی نے برطانیہ میں رہتے ہوئے فائنانشل ٹائمز میں پاکستان میں نئی ایڈوائزری فرم میں نوکری کا اشتہار دیکھا، جنہیں عالمی تجربے کا حامل ملازم درکار تھا۔ عارف نے پہلے نوکری پکڑی، پھر جہاز اور پاکستان آ گئے۔ جلد ہی عارف نقوی کے متعلق یہ خبر کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنے اکاؤنٹس کے پرچے پورے دیے ہی نہیں، ان کی چھٹی کروا گئی۔ پھر ادھر اھر وہ ٹامک ٹویاں مارتے رہے لیکن 1990 میں انہیں کک ملی۔ انہیں سعودی عرب میں موجود آلیان گروپ میں نوکری ملی۔ جہاں کچھ دیر رہنے کے بعد ان کے اور آلیان گروپ کے مالک سلیمان آلیان کے مابین کچھ یوں مکالمہ ہوا:
عارف: میں نوکری چھوڑنا چاہتا ہوں۔
آلیان: "میرا خیال ہے تم جلد بازی کر رہے ہو۔ جوان ہو۔ تم اس گروپ میں جو نوکری چاہو لے سکتے ہو۔
عارف: "مسٹر چیف آپ مجھے وہ نہیں دے سکتے جو میں اصل میں چاہتا ہوں۔
آلیان (حیران ہوتے ہوئے): ایسا کیا؟
عارف: "چیف میں آپ کی پوسٹ چاہتا ہوں۔
عارف اس مکالمے کے بعد نوکری چھوڑ آئے۔ لیکن وقت نے وہ دن دکھایا کہ جب عارف سلیمان آلیان سے بڑھ کر طاقتور تھا۔ اس کے زیر انتظام سلیمان گروپس سے بڑھ کر کمپنیاں تھیں۔
کیسے عارف نقوی نے اک دنیا کو اپنا گرویدہ بنایا:
یہ 2018 کے ابتدائی دن تھے۔ عارف نقوی دنیا کی نظر میں ایک ہیرو تھے۔ ان کا ابراج گروپ جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ، لاطینی امریکہ، ترکی سمیت دنیا کے چھے براعظموں میں کسی نہ کسی حوالے سے موجود تھا۔ کہیں ان کے سرمایہ کار تھے تو کہیں ان کے زیر نگیں کمپنیاں۔ سادہ ترین الفاظ میں کہوں تو بات یہ ہے کہ عارف نقوی ابراج کے ذریعے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں سے سرمایہ پکڑتے، انہیں ترقی پذیر ممالک میں موجود مختلف کمپنیوں میں لگاتے، جو منافع ہوتا خود رکھتے اور سرمایہ کار اگر طاقتورہوتا تو معاہدے کے مطابق اسے جلد یا بدیر منافع بھی تھما دیتے۔ لیکن اگر کمپنی کراچی الیکٹرک ہوتی اور آگے حکومت پاکستان تو اسے صرف کہانیوں پر ہی اکتفا کرنا پڑتا۔
رہا سوال کہ وہ کیا گیدڑ سنگھی تھی کہ عارف نقوی بل گیٹس جیسے بڑے بڑے سرمایہ کاروں کو گھیرنے میں کامیاب رہتے تھے۔ تو بھئی ان کے پاس ایک کہانی تھی جو بڑے بڑے پروفیسروں کی تھیوری کی بنیاد پر کھڑی تھی۔ عالمی اقتصادیات کے کچھ بڑے بڑے جغادریوں کے ہاں ایک تصور ہے۔ اسے کہتے ہیں امپیکٹ انویسٹ منٹ۔ سادہ الفاظ میں تصور یہ ہے کہ آپ سرمایہ کاری کے ذریعے منافع بھی کما سکتے ہیں اور دنیا کے غریب اور محروم عوام کے لیے کچھ اچھا بھی کرسکتے ہیں۔ اس تصور پر کھڑی تھیں عارف صاحب کی تمام کہانیاں۔ وہ عالمی سرمایہ کاروں کے کان میں جا کر کہتے میری بات سنو بھائی۔ میں تیسری دنیا کے مقامی حالات کو بڑی اچھی طرح جانتا ہوں۔ جنوبی ایشیا سے لے کر افریقہ تک میری حالات پر نظر ہے۔ تم یہ چاہتے ہو ناں کہ وہاں بھی ترقی ہو، لوگ بھوک و افلاس سے نکلیں، تاکہ نہ دہشت گردوں کے چنگل میں پھنسیں اور نہ تمہیں ان کی حکومتوں کو کروڑوں اربوں ڈالر کی امدادیں دینی پڑیں۔ گورا صاحب کے کان کھڑے ہوتے اور وہ پھدک کر کہتے ہاں۔ عارف صاحب باچھیں کھلا کر کہتے دو پھر ہاتھ۔ میں تمہارا پارٹنر ہوں۔ میں نے ایکوٹی فنڈ بنا رکھا ہے۔ تم سرمایہ کاری کرو میں اسے ترقی پذیر ممالک کی معیشت میں لگاؤں گا۔ وہاں ترقی ہو جائے گی اور منافع بھی ہوگا۔
اپنی کہانی پر اعتبار دلوانے کے لیے عارف صاحب نے بڑے بڑے لوگوں کو اپنا بورڈ ممبر بنا رکھا تھا۔ ان کے پاس اپنی کریڈبلٹی بنانے کے لیے تیز زبان اور کامیاب ڈیلز تھیں، جنہیں وہ بھاری بھرکم میڈیا کمپینز اور خیراتی کاموں سے خوب حقیقت کا روپ دیا کرتے تھے۔ اب پیسہ تو آ جاتا تھا ان کے ایکوٹی فنڈز میں۔ لیکن وہ لگتا نہیں تھا وہاں جہاں کا کہہ کر لیا جاتا تھا۔ بیشتر عارف صاحب کی جیب میں جاتا یا لانڈر ہو کر خفیہ اکاؤنٹس میں۔ یا پھر ابراج گروپ میں موجود دیگر حصہ داروں کی تجوریوں میں۔ کچھ عارف صاحب چادر سے بڑھ کر پاؤں پھیلانے میں صرف کرتے تاکہ انہیں اصل ارب پتیوں کی صف میں کھڑے رہنے میں آسانی ہو۔ انہوں نے بھی بل اور ملنڈا گیٹس کی طرح کی آمان فاؤنڈیشن بنا رکھی تھی۔ دکھاوے کی خاطر بھاری بھرکم خیراتی ہوتیں تھیں جان ہاپکن جیسی جامعات میں۔ سب اسی طرح اڑ اڑا جاتا تھا۔ ابراج کے اقتصادی منتظم یعنی چیف فائنانشل آفیسر رفیق لکھانی بس کھاتے ہی بس سیدھے کرنے میں لگے رہتے تھے کہ سرمایہ کاروں کو پتہ نہ چل جائے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو رہا ہے۔
عارف نقوی کے فراڈ کا بھانڈا کیسے پھوٹا؟
عارف نقوی صاحب 2002 میں ابراج کی بنیاد سے ہی ایسے ویسے کام کر رہے تھے۔ لیکن بھانڈا پھوڑا ایک نامعلوم ای میل نے 2018 میں جو کہ نہ صرف سرمایہ کاروں کو کی گئی بلکہ وال سٹریٹ جرنل کے رپورٹر سائمن کلارک کو بھی۔ پھر اس وقت تک عارف صاحب اس ہیلتھ کئیر فنڈ میں بھی ہاتھ دکھا چکے تھے جس میں پیسہ تھا بل اور ملنڈا گیٹس کا، اوربرطانوی وفرانسیسی اداروں کا تقریباً ایک ارب ڈالر تک۔ انہیں بھنک پڑ گئی تھی۔ بس پھر چند ہی ماہ لگے عارف صاحب کو ہیرو سے زیرہ ہوتے ہوئے۔ اسی لیے میں نے انہیں یونانی کردار ایکرس سے تشبیح دی۔ اس کے موم کے پر تھے، جیسے عارف صاحب کے۔ وہ اندر سے کھوکھلے دعوے لیے کھڑے تھے۔
بل گیٹس سے معاملات تو 2015-2016 میں طے پائے تھے۔ جب تک وہ جس تھالی میں کھا رہے تھے اسی میں چھید کر کر کھوکھلے ہو چکے تھے۔ کرپشن کے باعث انہیں اپنی بقا کی جنگ کے لیے اور کرپشن کرنا تھی۔ لیکن وہ سورج کے نزدیک چلے گئے جس نے ان کے پر پگھلا دیے۔ خیر صرف یہی بات نہیں ہے، کہانیاں اور سوالات اور بھی بہت سے ہیں۔جو کہ میں آئندہ تحاریر کے موضوعات کے لیے چھوڑے جا رہا ہوں۔ ان کے پیچھے عالمی قوتوں کی آپس کی جنگ بھی نظر آتی ہے، سرمایہ داروں کے مفادات بھی ہو سکتے ہیں اور ان کا حقیقی طور پر پھنسنا بھی ہو سکتا ہے۔ ہر ایک بات یا شک کے پیچھے میرے پاس اک بنیاد ہے۔ ابھی تو اس تحریر میں میں نے کراچی الیکٹرک کو نہیں چھیڑا، عمران خان کی فنڈنگ کو بھی نہیں چھیڑا۔ جڑے رہیے گا سب پڑھنے کو ملے گا۔ پھر میں آپ کو وہ سیڑھیاں بھی دکھاؤں گا جن پر عارف صاحب پاکستانی ایلیٹ سے عالمی ایلیٹ تک پہنچے۔