پیپل

اک پیپل کے نیچے میں نے اپنی کھاٹ بچھائی
لیٹ گیا میں کھاٹ پہ لیکن نیند نہ مجھ کو آئی
آہیں بھرتے کروٹیں لیتے ساری عمر گنوائی


پیپل کے پتوں کو گنتے کرتے ان پر غور
پیپل کی شاخوں کو تکتے بیت گیا اک دور
پیپل کی ہر چیز پرانی البیلا ہر طور


چلے ہوا تو ڈالی ڈالی لچک لچک بل کھائے
رکے ہوا تو سادھو بن کر دھیان کا دیپ جلائے
جھکڑ کے ہر وار پہ ڈولے چیخ چیخ رہ جائے


پیپل کی شاخوں پر بیٹھے کچھ پنچھی سستائیں
باہر سے کچھ آنے والے اک کہرام مچائیں
گائیں گیت انوکھے مل کر ناچیں اور نچائیں


پیپل کیا ہے جوگی کا بے درسا اک استھان
جھونکے پتے پنچھی انساں سب اس کے مہمان
کھاٹ پہ لپٹا سوچ رہا ہوں میں مورکھ نادان