پچھلے پہر کی دستک

ترے شہر کی سرد گلیوں کی آہٹ
مرے خون میں سرسرائی
میں چونکا
یہاں کون ہے
میں پکارا مگر
دور خالی سڑک پر کہیں
رات کے ڈوبتے پہر کی خامشی چل پڑی
رت جگوں کی تھکاوٹ میں ڈوبی ہوئی
آنکھ سے خواب نکلا کوئی
لڑکھڑاتا ہوا
رات کے سرد آنگن میں گرتا ہوا
خالی شاخوں میں اٹکے ہوئے
چاند کی آنکھ سے ایک آنسو گرا
اور سینے میں گم ہو گیا
دھند کی نرم پوریں
مساموں میں چلنے لگیں
دو طرف ایستادہ درختوں کے نیچے
بہے آنسوؤں کی مہک میں مجھے
نیند آنے لگی