پچھلے کو اٹھ کھڑا نہ ہو درد جگر کہیں
پچھلے کو اٹھ کھڑا نہ ہو درد جگر کہیں
پہنچے نہ اڑتے اڑتے کہیں سے خبر کہیں
کیفیت حیات سے خالی ہوا ہے دل
او ساقیٔ ازل مرا پیمانہ بھر کہیں
مر جائیں گے تڑپ کے اسیران بدنصیب
سن پائیں گے جو مژدۂ وحشت اثر کہیں
پھڑکا کیے مرقع عالم کے حسن پر
ٹھہری کبھی نہ اہل ہوس کی نظر کہیں
آخر حجاب و شرم کی حد بھی ہے مہرباں
پردہ الٹ نہ دے مری آہ سحر کہیں
دن وعدۂ وصال کا نزدیک آ چکا
پھر دیر کیا ہے یاسؔ ارے کمبخت مر کہیں