پھولی ہے شفق گو کہ ابھی شام نہیں ہے

پھولی ہے شفق گو کہ ابھی شام نہیں ہے
ہے دل میں وہ غم جس کا کوئی نام نہیں ہے


کس کو نہیں کوتاہیٔ قسمت کی شکایت
کس کو گلہ گردش ایام نہیں ہے


افلاک کے سائے تلے ایسا بھی ہے کوئی
جو صید زبوں مایۂ آلام نہیں ہے


چھلکوں کے ہیں انبار مگر مغز ندارد
دنیا میں مسلماں تو ہیں اسلام نہیں ہے


ایماں نہیں مومن کا مکافات عمل پر
امید کرم کیا طمع خام نہیں ہے


مسجد ہو خرابات ہو یا کوئے بتاں ہو
اس قلب تپاں کو کہیں آرام نہیں ہے


اے ماہ وشو لالہ رخو وصل کی ہم کو
خواہش تو ہے بے شک مگر ابرام نہیں ہے


کیفی ہیں مئے ناب خم مہر شدہ کے
ہم کو طلب درد تہ جام نہیں ہے


لفظوں کے در و بست پہ ہر چند ہو قادر
شاعر نہیں جو صاحب الہام نہیں ہے


ہر بات ہے خالدؔ میں پسندیدہ و مطبوع
اک پیرویٔ رسم و رہ عام نہیں ہے