پھول صحرا میں کھلا دے کوئی

پھول صحرا میں کھلا دے کوئی
میں اکیلا ہوں صدا دے کوئی


کوئی سناٹا سا سناٹا ہے
کاش طوفان اٹھا دے کوئی


جس نے چاہا تھا مجھے پہلے پہل
اس ستم گر کا پتہ دے کوئی


جس سے ٹوٹے مرا پندار وفا
مجھ کو ایسی بھی سزا دے کوئی


رات سوتی ہے تو میں جاگتا ہوں
اس کو جا کر یہ بتا دے کوئی


جو میرے پاس بھی ہے دور بھی ہے
کس طرح اس کو بھلا دے کوئی


عشق کے رنگ لیے پھرتا ہوں
اس کی تصویر بنا دے کوئی


دل کے خرمن میں نہاں ہیں شعلے
اپنے دامن کی ہوا دے کوئی


پھول پھر زخم بنے ہیں ناصرؔ
پھر خزاؤں کو دعا دے کوئی