پھول کچھ اور کھلائیں گے تم آؤ تو سہی

پھول کچھ اور کھلائیں گے تم آؤ تو سہی
اپنی پلکوں پہ بٹھائیں گے تم آؤ تو سہی


دوست دشمن کی بھی ہو جائے گی پہچان ابھی
آئنہ ایسا دکھائیں گے تم آؤ تو سہی


اپنی ناکام محبت کی رفاقت کے لئے
پیار کے دیپ جلائیں گے تم آؤ تو سہی


دشمنی ہم سے کرو بھی تو کوئی بات نہیں
دوستی پھر بھی نبھائیں گے تم آؤ تو سہی


قتل گاہوں سے گزر پائے نہ مظلوم کوئی
ہم یہ آواز اٹھائیں گے تم آؤ تو سہی


اس قدر دور ضیاؔ جاؤ گے معلوم نہ تھا
قصۂ درد سنائیں گے تم آؤ تو سہی