پھول خوشبو شام ساون شغل پیمانہ چلے

پھول خوشبو شام ساون شغل پیمانہ چلے
جس کو چلنا ہے ہمارے ساتھ مے خانہ چلے


یوں چلے لہرا کے جیسے موج بل کھائی ہوئی
یا سحاب مست جیسے چال مستانہ چلے


زلف سنبل پھول لب رخسار پر رنگ شفق
جنبشیں آنکھوں کی پلکوں میں کہ پیمانہ چلے


اس سے کہہ دو پتھروں کے بت میں ڈھل جائیں گے سب
اب نہ یہ جادوئے چشم مئے فروشانہ چلے


شکریہ احباب کا جن کی محبت کے طفیل
مجھ سے کچھ آگے ہی آگے میرا افسانہ چلے


اس گلی میں میرؔ کا ہمسر نہ آیا پھر شمیمؔ
وہ جو قاتل کو دعا دے کر فقیرانہ چلے