پھول غم کے کھلے رہے برسوں
پھول غم کے کھلے رہے برسوں
درد کے سلسلے رہے برسوں
زندگی تھی بہت عزیز مگر
زندگی سے گلے رہے برسوں
ان گلوں کے نسب کا کیا کہنا
دھوپ میں جو کھلے رہے برسوں
عشق تھی بات ایک لمحے کی
ہونٹ اپنے سلے رہے برسوں
دوستوں کی تو بات اپنی جگہ
ہم کو خود ہی گلے رہے برسوں
ایک تعبیر بھی ملی نہ ضیاؔ
خواب کے سلسلے رہے برسوں