پھر یوں ہوا کہ زندگی میری نہیں رہی

پھر یوں ہوا کہ زندگی میری نہیں رہی
اس کی نہیں رہی تو کسی کی نہیں رہی


وہ ہم سفر تھا کشتی پہ مانجھی بھی تھا وہی
دریا وہی ہے میں بھی ہوں کشتی نہیں رہی


بدلا جو اس کا لہجہ تو سب کچھ بدل گیا
چاہت میں ڈھل کے جیسی تھی ویسی نہیں رہی


پیڑوں میں چھاؤں پھول میں خوشبو ہے اپنا رنگ
ویرانی بڑھ گئی ہے کہ بستی نہیں رہی


کچے مکان جیسے گھروندے سے کھیلتی
پختہ ہوا جو صحن تو مٹی نہیں رہی


اک اعتراف عشق تھا جو کر نہیں سکی
خاموش اس لیے ہوں کہ سچی نہیں رہی