پھر اسی دھن میں اسی دھیان میں آ جاتا ہوں

پھر اسی دھن میں اسی دھیان میں آ جاتا ہوں
تجھے ملتا ہوں تو اوسان میں آ جاتا ہوں


بے نشاں ہو رہوں جب تک تری آواز کے ساتھ
پھر کسی لفظ سا امکان میں آ جاتا ہوں


جسم سے جیسے تعلق نہیں رہتا کوئی
بیشتر دیدۂ حیران میں آ جاتا ہوں


شاخ گل سے جو ہوا ہاتھ ملاتی ہے کہیں
اسی اثنا اسی دوران میں آ جاتا ہوں


تو کسی صبح سی آنگن میں اتر آتی ہے
میں کسی دھوپ سا دالان میں آ جاتا ہوں