پھر لوٹ کے اس بزم میں آنے کے نہیں ہیں

پھر لوٹ کے اس بزم میں آنے کے نہیں ہیں
ہم لوگ کسی اور زمانے کے نہیں ہیں


اک دور کنارا ہے وہیں جا کے رکیں گے
جتنے بھی یہاں گھر ہیں ٹھکانے کے نہیں ہیں


یوں جاگتے رہنا ہے تو آنکھوں میں ہماری
جو خواب چھپے ہیں نظر آنے کے نہیں ہیں


دل ہے تو یہ دولت کبھی معدوم نہ ہوگی
یہ درد کسی اور خزانے کے نہیں ہیں


کل رات خموشی نے عجب رنگ دکھائے
یہ شعر اگر ہیں تو سنانے کے نہیں ہیں


ہر سمت اجالا بھی ہے سورج بھی ہے لیکن
ہم اپنے چراغوں کو بجھانے کے نہیں ہیں


دنیا نے بھی کچھ ہم کو بہت گھیر لیا ہے
کچھ ہم بھی اسے چھوڑ کے جانے کے نہیں ہیں